ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
آس پاس کے لوگ بھی پریشانی سے بچ جاتے - محلہ بھر جاگ اٹھا کہ خدا جانے کوئی مر گیا کنویں میں گرگیا یا چور آگھسے یا کا ہے کا غل ہے - عرض کیا میں نے سورہ والفجر شروع کردی تھی جب تک وہ ختم ہوئی یہ تمام غل مچ گیا - سبحان اللہ یہ اور بڑھ کر ہوئی آپ کی تو قرات ہوئی اور مریض اور تمام محلہ کو پریشانی ہوئی - چاہئے یہ تھا کہ بقدر ضرورت قراءت کر کے نماز ختم کردیتے اور فورا دروازہ کھول دیتے - مریض مضطر ہوتا ہے اور اس دیر کرنے میں اس کی ایذا ہے اور حدیث میں ہے - المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ جس فعل سے مسلمان کو ایذا ہو وہ دین نہیں ہے ترک دین ہے بعض موقعوں پر نماز قطع کرنا اور توڑ دینا واجب ہے مثلا تمہارے سامنے کوئی کنویں میں گرا جاتا ہو اور تم نماز میں ہو تو واجب ہے کہ نماز توڑکر اس کو بچاؤ ورنہ بجائے ثواب کے گناہ ہوگا - اس کے بعد فرمایا آج سے تم دروازہ پر نہ سویا کرو - میں کسی طالب علم سے خدمت نہیں لیتا ہوں طالب علم اس واسطے نہیں ہیں ان کو اپنا ہی کام بہت ہے کسی کی خدمت کریں گے یا پڑھیں گے - نیز اس وجہ سے کہ خدمت کرنے سے مجھ پر ان کا ایک قسم کا دباؤ اور لحاظ ہوجائے گا پھر اگر تادیب کی ضرورت ہوگی تو میں نہ کرسکوں گا - نیز اس خیال سے کہ خدمت کر کے کوئی اپنے کو مقرب نہ خیال کرے اور لوگ اس کو بیچ میں نہ ڈالیں اس پر بہت سے مفاسد مبنی ہوتے جیسا کہ اکثر مشائخ کے یہاں موجود ہے اور ذاکرین کو تو اس قاعدہ کے ساتھ اور زیادہ خاص کر رکھا ہے - اگر کوئی طالب علم خود کوئی میرا کام کردے تو میں منع بھی نہیں کرتا ہوں لیکن ذاکرین کو اس سے بھی رد کتاہوں ایک تو زکر کا ادب اور دوسرے اس وجہ سے کوئی ان میں سے میرے اوپر کسی بات پر اصرار کی جرآت نہ کرنے لگے نیز کسی کو یہ خیال نہ ہوجاوے کہ میں مقرب ہوگیا اس سے ذکر و شغل میں کمی کرنے لگے - ف :- اس سے حضرت اقدس کی تواضع خشیت حفظ ایذاہ ادیگر و شان تربیت صاف ظاہر ہے - لا یعنی سے حذر فرمایا کہ سمجھ دار و تحقیق پسند لوگوں سے دلیل بیان کرنا اور تشفی کردینا مناسب ہے واجب یہ بھی نہیں آلا آنکہ معلم تنخواہ اسی پاتا ہو - حضرت والا کے پاس ایک سوال آیا کہ