ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
نہیں مگر آپ نے سوال کیا اسلئے کہنی پڑی - 1 - مومنین کے بارے میں مسلم کی حدیث ہے اماتھم اللہ اماتۃ اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ جہنم میں مسلمانوں کو عذاب کا احساس نہ ہوگا لیکن ہاں کفار کے برابر نہ ہوگا اس کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے کلور وفارم سنگھا کر اپریشن کیا جاتا ہے پھر اپریشن کی بھی دو قسمیں ایک سخت اور ایک ہلکا بعض دفعہ بہت ہی ہلک اپریشن کیا جاتا ہے - اس لئے ہلکا کلورو فارم کافی ہوتا ہے - یہی صورت مسلمان کے ساتھ دوذخ میں پیش آئے گی - خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان صورت جنہم میں جائیں گے حقیقت جہنم میں نہ جائیں گے - 2 - دوسرا فرق یہ ہے کہ کفار جہنم میں تعذیب کے لئے جائیں گے ان کو عذاب کا احساس شدید ہوگا اور مسلمان محض تہذیب کے لئے جہنم میں جائیں گے ان کو عذاب کا احساد اس قدر نہ ہوگا - جہنم مسلمانوں کے لئے مثل حمام کے ہے وہ اس میں پاک صاف کئے جاویں گے گو تکلیف حمام کے تیز پانی سے بھی ہوتی ہے - 3 - تیسرا فرق یہ ہے کہ مسلمانوں سے وعدہ انقطاع عزاب کا ہے یہ وعدہ عذاب کا زیادہ احساس نہ ہونے دے گا - اس کو اس مثال سے سمجھئے جیسے میعادی قیدی کا ایک وقت آرا، کا ہوتا ہے اور ایک وقت کام کا - دعنعں حالتیں قیدی ہی میں ہوتی ہیں تو ایک وقت ہلکا ہوا اور ایک وقت بھاری - اس سے بھی توسیع کرتا ہوں ایک وقت قید ہی کی حالت میں سونے کا ہوتا ہے جس میں کچھ بھی احساس نہیں ہوتا کہ میں کہاں ہوں اور کیا مجھ پر عذاب ہے ٓ ہھر ایک وقت رہائی کا ہوتا ہے کہ وہ قید خانہ کی کلفت کو کم کردیتا ہے - یہ سب گھڑت نہیں بلکہ نصوص میں ہے اور وہ بھی مسلم میں جو اصح الکتاب ہے - اعمال حسنہ ممتدہ میں صرف ابتدا میں ارادہ کرلینا کافی ہے فرمایا کہ اعمال حسنہ ممتدہ کے ہر وپرنیت مستقل اگر نہ ہو تو وہم میں نہ پڑنا چاہئے کیونکہ افعال اختیار یہ میں صرف ابتدا میں ارادہ کرنا پڑتا ہے ہر ہر جز ونیت کی حاجت نہیں ہوتی البتہ مضاد کی نیت نہ ہونا شرط ہے جیسے کوئی سخص بازار جانا چاہئے تو اول قدم پر تو قصد کرنا پڑیگا - پھر