ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
میں تو غم چیز ہے مگر کس قدر جس قدر حق تعالیٰ کا دیا ہوا ہے - یعنی طبعی ہے - باقی آگے جو حواشی ہم نے بڑھائے ہیں وہ برے ہیں - حد سے زیادہ غم کرنا گناہ ہے اور اس کا علاج فرمایا کہ حد سے زیادہ غم کرنا گناہ ہے اور گناہ بھی بے لزت اور علاج کرنا واجب ہوگا - چنانچہ اس آیت ماعند کم ینفدو ماعند اللہ باقی میں ایسے ہی غم کے علاج کا بیان ہے اور یہ بیان ایک مقدمہ پر موقوف ہے وہ یہ کہ اگر شے مرغوب کے جاتے رہنے سے غم لاحق ہو مگر کسی ایسی دوسری چیز کا پتہ ہم کو مل جاوے اور اس کے کے ملنے کا یقین ہوجاوے کہ جو اس شے مرغوب سے ہزار درجہ بڑھی ہوئی ہو تو پہلی چیز کا غم نہیں چاہئے - جیسے کسی کے ہاتھ میں ایک پیسہ ہوا اور دوسرا شخص اس کو چھین کر بجائے اس کے روپیہ دے دے تو ظاہر ہے کہ پیسہ کا غم بالکل ہی نہ ہوگا بلکہ اگر وہ شخص بدلنا چاہئے تو یہ بدلنے پر کبھی راضی نہ ہوگا - یہی بات اس آیت میں ہم کو بتلائی گئی ہے کہ جو چیزیں ہمارے پاد ہیں اور گو ہمیں راضی نہ ہوگا - یہی بات اس آیت میں ہم کو بتلائی گئی ہے کہ جو چیزیں ہمارے پاس ہیں اور گو ہمیں انتہا درجہ مرغوب ہیں مگر وہ سب فنا ہونے والی ہیں اس لئے ہم کو حکم ہے کہ تم ان مرغوب چیزوں تک مت رہو بلکہ جو چیز ان سے اچھی ہے اور وہ باقی ہے اس کی رغبت کرو اس طرح وہ غم فانی کا مغلوب ہوجائے گا - اصل علاج یہ ہوا کہ اخرت کی مرغوبات پر نظر کر کے دنیا کی مرغوبات کی طرف زیادہ توجہ نہ کرو تو غم غلط ہوجائے گا - ختم ہونیوالی چیز سے کیا جی لگانا ؛ خدا تعالیٰ سے دل لگانا چاہئے فرمایا کہ حق سبحانہ تعالیٰ کی عجیب تعلیم ہے کہ معاد کی اصلاح تو فرمائی ہی ہے معاش کی بھی پوری اصلاح فرمائی کیونکہ اس علاج مذکور سے نفسانی دیدنی راحت بھی تو حاصل ہوگئی اور خیال کرنے کی بات ہے کہ دنیا کی مرغوب سے مرغوب شے اگر اس وقت کم بھی نہ ہوتی مگر کبھی نہ کبھی تو ضرور کم ہوتی کیونکہ فنا ہونا تو گویا اس کے ذاتیات سے ہے جیسے چراغ میں تیل ہو جو محدود بھی ہے اور کم بھی ہورہا ہے تو وہ ایک نہ ایک وقت ضرور ہی ختم ہوگا - اسی طرح انسان ایک نہ ایک دن ختم ہو کررہے گا - اطباء نے لکھا ہے کہ رطوبت کی مثال تیل کی سی ہے اور حرارت