ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بددل ہوکہ پھر مکہ معظمہ واپس تشریف لائے اور مطعم بن عدی کو اطلاع فرمائی کہ اگر اہل مکہ مجھے امن دیں تو شہر میں آؤن ورنہ کسی دوسری جگہ چلا جاؤں - اس وقت مطعم بن عدی نے اہل مکہ سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے پناہ دی خبردار کوئی ان کو ہاتھ نہ لگائےے چنانچہ اس وقت ہجرت مدینہ تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم مطعم بن عدی کی پناہ کی وجہ سے مکہ میں تشریف فرمارہے ان کی اس ہمدردی کا ہمیشہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شکریہ ظاہر فرماتے تھے - اسی کے صلہ میں یہ ارشاد فرمایا تھا - اس وقت بعینہ یہی حالت ہے ان احکام کے ساتھ کہ جس طرح مطعم بن عدی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کی تھی اور آپ ان کے ممنون وشکر گزار تھے - اسی طرح حکام وقت ہمارے محافظ ہیں اور ہمارے امن کے ذمہ درا ہیں - ہم کو بھی ان کا شکریہ گزار رہنا چاہئے جس کا ادنیٰ اثر یہ ہونا چاہئے کہ کوئی ایسی شورش نہ کریں جس سے حکام تشویش میں پڑجاویں - نفس تو شیطان کا بھی باپ پوتا ہے فرمایا کہ نفس مکار شیطان سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ اس کو بھی نفس ہی نے تو خرابی میں ڈالا تھا وہ بالزات تو بدذات نہ تھا - نفس ہی کے کید میں آکر بدذات ہوا تو یہ نفس شیطان کا بھی باپ ہوا - الحزم سوء الظن کی تفسیر فرمایا کہ الحزم سوء الظن اس کی تفسیر میں حضرت حاجی صاحب نے فرمایا تھا کہ اے من نفسہ یعنی دانائی واحتیاط یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس سے سوء ظن ہی رکھے - کسی وقت مطمئن نہ ہو ہمیشہ کھٹکتا رہے - اگرچہ حکماء اس نے جملہ کے دوسرے معنی بھی لئے ہیں وہ یہ کہ انسان کو کسی پر اعتماد نہ چاہئے ہر شخص پر بدگمان ررہے - احتیاط رکھے وہ کیسا ہی مخلص دوست ہو - معاملہ کے اعتبار سے یہ بھی صیحح ہے مگر عارفین یہ کہتے ہیں کہ دوسروں سے حسن ظن رکھے اور اپنے نفس سے سوء ظن رکھے - دوسرے کے ساتھ حسن ظن کی تعلیم فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب فرماتے تھے کہ میرے پاس جو لوگ آتے ہیں ان کے قدموں کی زیارت کو موجب نجات جانتا ہوں کیونکہ وہ یقینا اچھے ہیں اور ان کے اچھے ہونے کی