ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
اجتہاد کا حق ہم کو نہیں اور نصوص کے خلاف کرنا حرج عظیم ہے - یہ سب جیل جانا وغیرہ خود کشی کے مرادف ہے اور اگر خود کشی سے کسی کو فائدہ پہنچے تب بھی باوجود موجب فوائد ہونے کے جائز نہیں - چہ جائیکہ کوئی فائدہ بھی نہ پہنچے تو اس کا درجہ ظاہر ہے یعنی اگر یہ معلوم ہوجاوے کہ خود کشی کرنے سے کفار پر اثر ہوگا تو خود کشی کرنا کیا جائز ہوجائے گا - اگر کوئی نفع بھی خود کشی پر مرتب ہو تو یہ خود ہی اتنا زبردست نقصان ہے کہ جس کا پھر کوئی بدل کبھی نہیں - حضرت ہر منفعت کا اعتبار نہیں - اس کی تو بالکل ایسی مثال ہے کہ کوئی شخص یوں لکھے کہ فلاں شخص کی جان بچ سکتی ہے اگر تم کنوئیں میں گر جاؤ تو اس کی جان بچانے کی غرض سے کیا کنوئیں میں گرنا جائز ہوگا - استطاعت لغویہ اور شرعیہ کا فرق فرمایا کہ قدرت علی اضرار الخصم یہ ہے کہ جس میں خصم کو کوئی ضرر معتد بہ ہو اور اس کے ساتھ اپنا کوئی ضرر یقینی نہ ہو اور ظاہر ہے کہ جیل وغیرہ میں اپنا ضرر ہے اور ان کا کوئی ضرر معتدبہ نہیں قدرت کی دو قسمیں ہیں ایک یہ کہ جو کام ہم کرنا چاہیں اس پر قدرت ہے لیکن اس کے کر لینے کے بعد جن خطرات کا سامنا ہوگا ان کے دفع کرنے پر قدرت نہیں دوسرے یہ کہ فعل پر بھی قدرت ہے اور پھر جو خطرات پیش آویں گے ان کی مدافعت پر بظن غالب عادۃ بھی قدرت ہے - پہلی صورت استطاعت لغویہ ہے اور دوسری صورت استطاعت شرعیہ جس کو اس حدیث نے صاف کردیا ہے - من رای منکم منکرا فلیغرہ بیدہ فان ل، یستطع فلبسانہ فان لم یستطع فبقلبہ غرضکہ قدرت عادی شرط ہے محض کامیابی کی خیالی توقع قدرت نہیں - قتال اور تدبیر مخترعہ کا فرق فرمایا کہ جس موقع کے لئے قتال شرعا مقصود اور منصوص ہے وہاں مقصود اور منصوص ہونے کی وجہ سے اس ضرر معتبر نہیں اور یہ تدابیر مضترعہ ( جیل وغیرہ جانا ) غیر منصوص ہیں اس لئے اس ضرر کو دیکھا جائے گا وجہ فرق دونوں میں یہ ہے کہ اصل مقصد یہ ہے فتنہ نہ ہو قتال فتنہ نہیں ہے کیونکہ قتال میں طبیعت یکسو ہوجاتی ہے اور سکون ہوتا ہے اور ان امور میں تشتت اور پراگندگی اور اضاعت اوقات ہے -