ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
امور طبعیہ کی دوقسم فرمایا کہ امور طبعیہ دوقسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو کسی عمل سے ناشی نہ ہوں بلکہ فطری ہوں وہ تو نہ محمود ہیں نہ مذموم اور ایک قسم امور طبعیہ کی یہ ہے کہ فطری نہ ہوں بلکہ کسی عمل سے پیدا ہوئے ہوں تو ان کے اندر یہ تفصیل ہے کہ اگر وہ کسی عمل محمود سے پیدا پوئے ہوں تب تو محمود ہوں گے اور کسی عمل مزموم سے پیدا ہوں تو مزموم ہوں گے - چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ اذا سرتک حسنتک وساء تک شیئتک فانت مومن یعنی اگر نیک کام کر کے تجھ کو مسرت ہو اور گناہ کر کے تیرا جی برا ہو تو مومن ہے تو اب یہاں مسرت جو ہے ویک طبعی ہے مگر چونکہ یہ ایک عمل صالحہ سے پیدا پوئی تھی اس لئے اس کو علامت ایمان کی فرمایا گیا اور جو چیز محمود نہ ہو وہ ایمان کی علامت نہیں بن سکتی تو معلوم ہوا کہ یہ محمود ہے اور گو یہ امر فی نفسہ طبعی نہیں مگر حال لازم ہوجانے سے مثل امر طبعی کے ہوجاتا ہے اور یہ خدائے تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مسرت کو امر طبعی بنادیا اسی طرح اگر سکی کو قبض ہو تو اگر کسی گناہ کے سبب ہو تو وہ مذموم اور اس کے علاج کی ضرورت ہے اور اگر اس کا سبب کوئی گنا نہ ہو تو اس کی کچھ فکر نہ کرے کیونکہ وہ مذموم نہیں - اذکار میں سر سری توجہ مناسب ہے فرمایا کہ جیسے طبیعت کو آزاد چھوڑ دینا مضر ہے اسی طرح زیادہ مقید کرنے سے بھی تنگ ہو اجتی ہے بس نماز میں اتنی توجہ کافی ہے جیسے کوئی سورت کچھی یاد ہو اور سر سری طور پر سوچ کر پڑھتا ہے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں - پھر اگر اس کے ساتھ بھی وساوس آویں ذرا مضر نہیں - استخارہ کی حقیقت اور اس کا محل اور اسے کے آثار کی تحقیق فرمایا استخارہ ایسے معاملہ میں ہوتا ہے جس میں احتمال نفع وضرر دونوں کا ہو اور جو عادۃ یا شرعا یقینا ضرر ہو اس میں استخارہ نہیں جیسے کوئی نماز پڑھنے کے لئے استخارہ کرنے لگے یا دونوں وقت کھانا کھانے کے لئے استخارہ کرنے لگے یا چوری کرنے کے لئے یا اپاہج عورت سے نکاح کرنے کے لئے استخارہ کرنے لگے - استخارہ ایک دعا ہے کہ اللہ اگر یہ معاملہ