ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
نماز نہ پڑھنے کی وعیدوں سے یہ انجان ہیں غرض ہم نے مغرب کی نماز پڑھی - ڈپٹی صاحب کا خیال یہ تھا کہ میں نے چونکہ نماز نہیں پڑھی - یہ مجھ سے اب نہ ملے گا مگر میں نماز پڑھ کر اس ہی بشاشت سے ان کے پاس جا بیٹھا اور باتیں کرنے لگا - مجھ سے تو نہیں اور ساتھیوں سے کہ میں تو ذبح ہوگیا اگر نماز کو کہا جاتا تو مغرب کی نماز تو ضرور پڑھ لیتا مگر پھر کبھی نہ پڑھتا اور اب مغرب کی نماز تو قضا ہوئی مگر پھر اور کبھی کوئی نماز قضا نہ ہوئی یکے نمازی ہوگئے سو کہیں تو کہنے سے نفع ہوتا ہے کہیں نہ کہنے سے نفع ہوتا ہے مختلف مواقع ہیں - فقہ کا ایک قاعدہ ہے جو فعل مباح یا مندوب ہو اور موجب ضرر اس کو ترک کر دیں گے ہاں جو واجب ہو اس میں اگر ضرر ہو تو اس کو ترک نہ کریں گے بلکہ اس کی اصلاح اور اس کے ضرر کا انسداد کردیں گے - سو امر بالمعروف جہاں تبلیغ نہ ہوئی وہاں تو واجب ہے اگر اس کا نتیجہ خراب بھی ہو تو حتے الامکان اس کا انسدا کریں گے لیکن امر بالمعروف کو ترک نہ کریں گے اور جہاں تبلیغ ہوچکی ہو وہاں مباح یا مندوب ہے - وہاں اگر نفع سے زیادہ ضرر متحمل ہو تو اس کو تر کردیں گے - غرض تبلیغ کے بھی حدود ہیں مگر اس کی کوئی رعایت نہیں کرتا اس باب میں بڑی کوتاہی ہو رہی ہے - علماء کو اس میں ابتلا ہے - ( ملفوظ 217 ) تفاخر کی رسومات قابل ترک ہیں ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ سب لغو عذرات ہیں کہ باوا دادا سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے - میں کہا کرتا ہوں کہ اگر باوا ندھا ہوا اور تم کو خدا نے آنکھیں دے دی ہوں تو کیا اس خیال سے کہ باد دادا ندھے تھے اپنی آنکھیں پھوڑ دو گے - اس وقت گو بعضی رسمیں کم ہوگئی ہیں مگر بعض اور بڑھ گئی ہیں اس طرح سے کہ پہلے شرک و بدعت کی رسمیں زیادہ تھی مگر تفاخر کی رسمیں نہ تھیں - فضول خرچی نہ تھی - سیدا سادہ کھانا کھلا دیتے تھے - ضروری چیزوں کا سامان ایک جگہ ہوتا تھا وہاں ہی سے سب مانگ کر کام چلا لیتے