ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
تقدم ذاتی کا فرق ہے - اور اس واسطہ فی الثبوت کے قائل ہونے میں کسی نص کا خلاف لازم نہیں آتا گو اس پر کوئی دلیل قطعی بھی قائم نہیں مگر اس پر دلیل کی حاجت بھی نہیں یہی کافی ہے کہ کسی دلیل شرعی سے مردود نہیں - اسی واسطے علامہ برزنجی مدنی نے واسطہ فی العروض ہونے پر انکار کیا ہے اور اس پر مولوی ظفر احمد صاحب نے کہا کہ مولانا خلیل احمد صاحب سلمہ سہارنپوری نے فرمایا تھا کہ اس کا خلجان میرے دل میں بھی ہوا کرتا تھا اس کی تاویل کرنا ہو گی - باقی اصطلاح کا علحیدہ ہونا یہ امر کا برا عن کا بر موروث ہے چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب کی بھی خاص اصطلاحات ہیں اس کے بعد ایک صاحب نے کہا کہ اس واسطہ فی العروض کی مولانا نے یہ امثلہ لکھی ہیں جیسے دیوار کا منور ہوتا آفتاب سے یا پانی کا آگ سے گرم ہونا - فرمایا بس اس سے اس تاویل کی تصریح تائید ہوگئی کیونکہ یہ اشیاء فی الحقیقۃ بھی موصوف ہوتی ہیں اب صاف معلوم ہوگیا کہ واسطہ فی العروض سے مراد واسطہ فی الثبوت ہی ہے پھر فرمایا کہ مولانا کے علوم کشفی تھے ان کو واقف ہی سمجھ سکتا ہے - دو تفسیری نکات ( 78 ) بتاریخ مذکو فرمایا ومن اوفیٰ مبا عاھد علیہ اللہ کی بابت ایک صاحب کشف فرماتے تھے کہ میں نے عالم قدس میں اس کے متعلق دریافت کیا معلوم ہوا کہ یہ اصل میں تھا عاھد علیہ ھو اللہ اس طرح سے کہ ھو تاکید ہوگی ضمیر مستتر مرفوع کی علیہ کی ھا اور ھا اور ھو کا واؤ حذف کردیا گیا لہذا ضمہ ضمیر غائب ہو کا بدستور رہا اھ - اس کے بعد فرمایا کہ اسی طرح مولانا محمد یعقوب صاحب علیہ الرحمتہ آیت قال لا عاصم الیوم من امر اللہ لا من رحم کی تفسیر میں فرمایا کرتے تھے کہ اس اصل یہ تھی لا عاصم الیوم من امر اللہ الا اللہ وال معصوم الیوم من امر اللہ لا من رحم جملہ اول کا عجز اور ثانی کا صدر حذف کردیا ورنہ بظاہر مرحوم کا عاصم ہونا لازم آتا ہے حالانکہ مرحوم معصوم ہوگا اسی واسطے بعض نے عاصم مبعنی معصوم لیا ہے اور اس کی نظیر میں فرماتے تھے کہ شیخ سعدی کا شعر ہے طبع تراتا نحو کرد الخ طبع ترا کے بعد ہوس نحوشد ہونا چاہیئے تھا پس اس کی اصل یہ تھی - طبع تراتا ہوس نحو شدہ طبع تو تاہوس نحو کرد - اس میں بھی صدور عجزصدور عجز ہوا -