ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
فرمایا حضرت کا کلام مجمل ہوگا راوی نے تفصیل میں غلطی کی - مقصود انکار استفاضہ عن جبرئیل نہ تھا ورنہ نصوص کا انکار یا تاویل بلا دلیل کرنا پڑے گی - مقصود اس استفاضہ کی حقیقۃ الحقیقۃ بیان فرمانا تھا - یعنی جبرئیل علیہ السلام کا یہ افاضہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ان کے آنجناب ہی سے استفاضہ روحانیہ سے مسبب تھا کیونکہ یہ ثابت ہوچکا ہے تمام مخلوقات اور ان کے کمالات حضور کی بدولت ہیں جیسے حضرت عمر کا حضور نے بعض اوقات مشورہ قبول کیا اور وہ مشورہ حضرت عمر ہی کا تھا لیکن ان کا یہ مشورہ دیان حضور ہی کے فیوض و برکات کا نتیجہ تھا - اور اسی وقت اس کی ایک مثال سمجھ میں آئی مصلی کو اگر خارج عن الصلوۃ لقمہ دے اگر مصلی کو اس کے لقمہ سے تنبیہ ہوجائے اور یاد آجائے تب تو نماز درست ہوگی اور اگر محض اس کی اقتداء کرے اور اسے یاد نہ آوے تب نماز صحیح نہیں ہوگی - تو یہاں حالانکہ اتباع غیر مصلی کی رائے کا کیا لیکن لا من حیث ان رایہ بل من حیث انہ موافق لرائے نفسہ اسی طرح فیض جبرئیل سے لیا لا کن لا من حیث انہ فیضہ بل من حیث انہ فیض صلی اللہ علیہ وسلم کتاب تحذر الناس میں حضرت مصنف کی مخصوص اصطلاح کی وضاحت ( 77 ) بتاریخ مذکور - فرمایا تحذیر الناس میں کئی مقامات پر مولانا نے انبیاء کے اتصاف بالکمالات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو واسطہ فی العروض کہا ہے تو یہ مولانا کی اصطلاح ہے اس سے مراد واسطہ فی الثبوت ہے کیونکہ واسطہ فی العروض کے معنی تو یہ ہیں کہ ذی واسطہ حقیقۃ موصوف ہی نہ ہو بلکہ موصوف محض واسطہ ہی ہو - جیسے سفینہ و جالس سفینہ میں کہ متحرک محض واسطہ یعنی سفینہ ہی ہے اور ذی واسطہ یونی جالس حقیقۃ متصنف بالحرکۃ ہی نہیں تو کمالات انبیاءمیں بھی واسطہ فی العروض کے معنی یہ ہوں گے کہ ماکانوا متصفین بالنوبۃ و کمالانھا حقیقۃ حالانکہ خود حق تعالیٰ نے جا بجا قرآن شریف میں ارشاد فرمایا ہے لقد ارسلنا نوحا و مثلہ اور انہ کان صدیقا نبیا وغیر ذلک پس واسطہ فی الثبوت مراد ہے جیسے حرکت ید مفتاح کے لئے کہ واسطہ اور ذی واسطہ دونوں بالذات متحرک ہیں محض