ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
نہیں کہ ورع عدول سے بڑھنا نہ چاہئے اور اسی کو منتہائے ہمت بنالینا چاہئے بلکہ اس مثال سے اس کی توضیح بخوبی ہوسکتی ہے کہ زیادہ مالداری خطرناک ہے اور تاوقتیکہ ملا کی حفاظت اور سمائی کے سامان نہ ہوں ہوس کرنا جان کو بھی خطر ہ میں ڈالنا ہے - مگر یہ کسی کو نہیں دیکھا کہ ادنیٰ معیشت پر قناعت کئے ہو بلکہ جہاں تک ہوسکتا ہے بڑھ کر ہی قدم رکھتا ہے - اسی طرح چاہئے کہ ورع عدول تو مضبوطی کے ساتھ اختیات کر لے اور نظر مافوق پر رکھے - جب موقع پاوے اس سے بھی نہ چوکے - مجلس چہل و ہفتم ( 47 ) قصہ طالب علم بابت تصنع : حضرت والا کی خدمت میں چند روز سے ایک طالب علم آئے ہوئے تھے یہ منتہا طالب علم تھے مگر ابتدا خراب ہونے کی وجہ سے صرف و نحو بھی صیحح نہ تھی اس واسطے یہ تجویز ہوئی کہ ایک نظر کتابوں پر از سر نو ڈال جاویں اور اس کے واسطے وہ چھوٹی جماعتوں کے سامع کر دیئے گئے - حضرت والا کو ان کی پاسداری زیادہ ملحوظ تھی بوجہ اس کے کہ ان کے بڑے بھائی حضرت والا کے خادم ہیں اور حضرت والا کو ان سے خاص انس ہے - انہوں نے ہی ان کو حضرت والا کی خدمت میں بھیجا اور خرچ کی کفالت کی تھی - ان طالب علم صاحب کے مزاج میں کچھ تصنع اور تکلیف اور ترفع تھا بوجہ اس کے کہ چند روز وعظ گوئی کا پیشہ کیا تھا اور جسم کے بھی قوی تھے - اور ورزش اور پہلوانی کا بھی شوق تھا ان کو آئے ہوئے تقریبا ایک مہینہ ہوا تھا آج صبح ہی کا واقعہ ہے کہ یہ مولوی صاحب ( ان کو تمام واقعہ میں بلفظ مولوی صاحب یاد کیا جاوے گا ) صبح کے وقت کرتا بہت نیچا اور اوپر سے صدری پہن کر گھڑی جیب میں ڈال کر واعظانہ بڑا سا عمامہ باندھ کر کہیں جارہے تھے - حضرت والا کی نظر ان پر پڑگئی تو راقم سے فرمایا کہ ان سے کہہ دینا کہ یہ وضع مجھ کو پسند نہیں - طالب علموں کی طرح رہنا چاہئے - صدری کرتے کے نیچے کرلیں اور اگر ضرورت نہیں تو بالکل نہ پہنیں - اس کے بعد ان کا ایک خط حضرت والا کی نظر پڑ گیا جس کا ذکر آگے آتا ہے اس سے حضرت والا بہت افروختہ ہوئے - اب شام کو بعد مغرب یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت والا مغرب کی نماز کا سلام پھیرنے