ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
قدر آتی ہے کہ کس درجہ کی بات ہے - عزیزوں کے ساتھ جان کھپادیں مگر بیکار - مورخہ 12 ذیقعدہ 1332 ھ قریب مغرب روز پنجشنبہ درسہ دری خود درمسجد فوائد و نتائج ( 1 ) بزرگوں پر انکے اعزا کی حالت دیکھ کر اعتراض : بعض جہلا المعترض کا لا علمی کے مصداق کو دیکھا کہ جب کسی بزرگ کی نسبت ان کو کوئی حرف گیری کا موقعہ نہ ملے تو بھی اعتراض چھانٹ لیتے ہیں کہ ان کے گھر بھی ایسی باتیں ہوتی ہیں - اگر کچھ ہوتے تو اپنے گھر کی اصلاح تو پہلے کرتے ٓ ہر چند کہ ایسے جہلا کو قابل خطاب بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ تعلیم و صحبت مذہبی سے قطع نظر جس نے کوئی صحبت یا تعلیم بھی تھوڑی یا بہت پائی ہے وہ ایسی بات نہیں کہہ سکتا - کسی مذہب اور ملت اور کسی قانون اور آئین میں یہ نہیں مانا گیا کہ ایک کے قصور کا ذمہ دار دوسرا ہو لیکن اس وجہ سے کہ اس غلطی میں بعض پڑھے لکھے بھی شریک ہو جاتے ہیں یہاں ان سے تعرض کیا گیا - بزرگوںکے تصرفات کو اختیاری سمجھنا : بیان اس کا یہ ہے کہ ان جہلا ء کے ایسے بے ڈھنگے اعتراض کی ایک تو وجہ ان بزرگ سے بے وجہ مخالفت ہے - یہ حمیت جاہلیت تو انہیں کے ساتھ خاص ہے تعلیم یافتہ اور صحبت یافتہ اشخاص میں یہ کم ہوتی ہے اور دوسری وجہ ایک عقیدہ فاسد ہے وہ یہ کہ بزرگوں کو اس قدر صاحب تصرف اور ذی اختیار سمجھتے ہیں کہ جو چاہیں کرسکتے ہیں جو چاہیں امیر بنادیں اور جس کو چاہیں فقیر اور جس کو چاہیں ہدایت کردیں اور جس کو چاہیں گمراہ - جب ان کے خیال میں بزرگوں کے یہ صفات ہیں تو جس میں یہ صفات نہ پائی جاویں ان کو بزرگ نہیں سمجھتے - اس خیال میں تعلیم یافتہ بھی شریک ہیں - اکثر واعظ منبر پر بیٹھ کر بزرگوں کی ایسی ایسی کراماتیں بیان کرتے ہیں جس سے دفعہ کو تو سننے والا یہ کہتے بھی ڈرنے لگتا ہے کہ یہ بزرگ از جنس انسان تھے - ہمارا یہ مطلب نہیں کہ کرامت کوئی چیز نہیں یا کرامتوں کا بیان کرنا وعظ میں چاہئے بکلہ مطلب یہ ہے کہ جہاں کرامات کا ذکر کیا جاتا ہے وہاں ان کے