ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
اور ایک غیر مقلد نے قراءت فاتحہ خلف الاما میں جھگڑے ہوئے آئے - حنفی نے اپنا قول ممانعت کا بیان کیا - مولوی صاحب نے کہا کہ ٹھیک کہتا ہے - غیر مقلد نے اپنا قول وجوب کا بیان کیا اس کو بھی یہی کہا کہ ٹھیک کہتا ہے - اعتراض یہ کیا کہ دونوں باتیں کیسے صحیح ہوسکتی ہیں - حضرت نے فرمایا کہ یہ اختلافی مسئلہ ہے - دونوں کے لئے دلائل موجود ہیں اس لئے کوئی اعتراض کی بات نہیں - اس کے بعد ارشاد فرمایا - کہ تم اس اختلاف کو کیا لئے پھرتے ہو ایک دن ایسا ہوگا یعنی قیامت کہ اس میں بہت لوگ ایسے بخشے جائیں گے جو کو تم دنیا میں کافر سمجھا کرتے تھے اور واقع میں کافر نہ تھے - مگر تم کو ان کے یمان کا ادراک نہ تھا - یہ تو مولانا کی صوفیت کی شان تھی پھر علم کی شان بھی ظاہر ہوئی کہ فرمانے لگے کو کبھی کبھی کسی کو دھمکانے کے لئے کافر بھی کہہ دیا کرو - حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ پر تہمت ( 24 ) فرمایا کہ ایک زمانہ میں مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق بعض لوگوں نے مشہور کردیا کہ لا الہ الا الہ کیساتھ محمد رسول اللہ کہنے کو بدعت بتاتے ہیں - اس کے متعلق امیر چاہ خان صاحب نے مولانا نے دریافت کیا - فرمایا باکلک بہتان ہے - پھر تامل کے بعد فرمایا کہ ہاں جب موذن اذان کے اخیر میں لا الٰہ الا اللہ کہتا ہے تو اس وقت سامع و جواب میں صرف لا الٰہ الا اللہ کہنا چاہیئے محمد رسول اللہ نہیں کہنا چاہیئے میں نے اسی کو منع کیا تھا - لوگوں نے اس سے بدنام کیا ہے - یکشنبہ 3 ربیع الاول 1358 ھ مطابق 21 مئی 1939 ء علی الصباح بوقت مشی اہل عرب کی وضعداری : ( 25 ) فرمایا عرب میں وضعداری اور خلق اس قدر تھا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے اور اب بھی اس کا اثر وہاں موجود ہے خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ ہے جس کا اشارہ