ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
فرمادیا - چنانچہ حضرت سلطان جی کو سماع شرعا نا جائز نہ تھا کیونکہ وہ آداب و حدود کی رعایت کے ساتھ تھا مگر فقہاء اس کو بھی بدعت کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور عوام کو اجازت دینے میں مفسدہ ہے - حضرت نظام الدین کا سماع اور قاضی وقت حضرت سلطان جی کے زمانہ میں قاضی ضیاء الدین سنامی قاضی تھے وہ ہمیشہ حضرت سلطان جی کے سماع پر نکیر کرتے تھے ایک بار ان کو معلوم ہوا کہ حضرت سلطان جی کے یہاں مجلس سماو گرم ہے وہ درہ لے کر اپنے حشم و خدم کے ساتھ وہاں پہنچے - ایک بڑے خیمے کے اندر سماع ہورہا تھا - قاصی صاحب اور ان کے خدم و حشم کو سلطان جی تک پہنچنے کا راستہ نہ ملا - خیمہ مجمع سے بھرا ہوا تھا - راستہ مل سکتا تھا - صوفیوں کو قاضی و محتسب کی کیا پروا تھی - وہاں ان کو کون راستہ دیتا اور کون سلطان جی تک پہنچاتا - صوفیہ تو بادشاہ کی بھی پرواہ نہیں کرتے - یہاں تو سب اپنے حال میں مست تھے - قاضی صاحب کا جب کوئی زور نہ چلا تو فوج کو حکم دیا کہ خیمے کی طنابیں کاٹ دی جائیں تاکہ خیمہ گر پڑے اور اس کے نیچے دب کر یہ سماع کو بند کردیں مگر طنابیں کاٹ دینے کے بعد بھی خیمہ اور چوبیں اسی حالت میں قائم رہیں - یہ حضرت سلطان جی کی کرامت تھی - مگر قاضی صاحب بھی اپنی دھن کے ایسے پکے تھے - فرمانے لگے کہ میں اس ڈھونگ کا قائل نہیں - بدعتی سے ظاہر میں کرامت بھی صادر ہو تو وہ کرامت نہیں - اور یہ کہہ کر اچھا کسی وقت آؤں گا اس وقت واپس گئے کچھ زنامہ کے بعد پھر تشریف لائے اور برابر نکیر کرتے رہے - حضرت شاہ خوب اللہ صاحب اٰلہ آبادی جو بڑے بزرگ تھے - حضرت خضر علیہ السلام سے ملا کرتے تھے ان کے خاندان میں مشہور ہے کہ ایک کتاب پر حضرت خضر علیہ السلام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ف ہے - ان سے کسی سماع کی بابت دریافت کیا کہ آپ کی رائے اس بارہ میں کیا ہے ؟ آپ نے جواب لکھا کہ میں ایک واقعہ لکھتا ہوں اس سے فیصلہ کرلو - حضرت سلطان نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ صاحب سماع تھے - اور حضرت قاضی ضیا ء الدین سنامی منکر سماع ان پر نکیر کرتے تھے - ایک دفعہ وہ مجلس سماع کی خبر سن کر تشریف لائے اور اس پر نکیر