ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
تہمت کے مواقع سے بچنے والی حدیث کی تشریح ( 7 ) ایضا بتاریخ مذکور ذکر آیا کہ بعض سالکین حالت تذلل و انکسارو ملامت میں رہے ہیں ایک مولوی صاحب نے فرمایا کہ یہ اتقوا مواضع التھم کے خلاف ہے فرمایا وہ مقتداء و مشائخ کے واسطے ہے حدیث خاص ہے عام نہیں - جیسے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہ مسجد میں حضرت صفیہ آپ کے پاس تھیں مکان تشریف لے جارہی تھیں - سامنے سے دو شخص آریے تھے آپ نے فرمایا علیٰ رسلکما جب وہ چلی گئیں تو آپ نے فرمایا کہ انھا صفیۃ انہوں نے کہا نعوذ باللہ آپ پر کوئی شبہ و گمان ہوسکتا ہے - فرمایا نہیں شیطان مثل خون کے ہر شخص کت رگ و ریشہ میں سرایت کرتا ہے مجھ کو اندیشہ ہوا کہ تمہاتے دل میں کوئی بات نہ ڈال دے - پس یہ حدیث بڑے مشائخ اور ایسے مقتداؤں کے واسطے ہے ورنہ بعض مشائخ نے اپنے سلسلہ کے غیر مقتداء لوگوں کے لئے تذلل و ملامت کو پسند کیا ہے - اور کبر و عجب و غیرہ کا اس کو معالجہ قرار دیا ہے یہ لوگ احادیث متعلقہ باطن کو اپنے ذوق خدا داد سے سمجھتے ہیں جیسے فقہاء وحادیث متعلقہ اعمال ظاہر کو سمجھتے ہیں - اس پر مولوی صاحب موصوف نے سوال کیا کہ صحابہ رضی اللہ عنہیم سے یہ طریقہ ملامت ثابت نہیں - فرمایا بعض سے ہے مگر بکثرت نہیں - دیکھو مسلم میں حدیث ہے کہ ایک صحابی مسجد نبوی میں دور سے نماز پڑھنے آیا کرتے تھے کسی نے ان سے کہا کہ مکان مجسد کے قریب لے لو - کہا میں پسند نہیں کرتا کہ میرا مکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے قریب ہو - سو اس صحابی نے ایسی بات کہی جو موہم خلاف شرع ہے چنانچہ مخاطب کو بے حد گران گزرا اور اس نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ بات پہنچائی - آپ نے پوچھا انہوں نے عرض کیا کہ مطلب یہ تھا کہ دور سے آؤں گا زیادتی اقدام سے ثواب میں زیادتی ہوگی - چنانچہ آپ نے اس کو قبول فرمایا - اس حدیث سے اس کا صدور عن الصحابہ معلوم ہوا - اس وقت مجھ کو یاد نہیں حقیقت طریقت میں اور ایسے واقعات نکلیں گے - حیات بعد الممات کی وضاحت (8 ) ایضا بتاریخ مذکور ع ہر ھزگز نمیردآں کہ دش زندہ شد بعشق - کی تحقیق مذکور فی الئکشف کے بارے میں فرمایا کہ مطلق حیات بعد الموت کا رہنا تو سب میں مشترک ہے مگر