ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
جاوے - پھر اوپر جاکر زندہ رہنا ممکن نہیں وہ ازروئے انصاف تو عاجز ہوچکے تھے اب ان کا جواب نہیں دینا چاہتے - ان سے اپنا مدعا ثابت نہیں ہوتا جو لفظ وہ اطلاق کرتے تھے اس کے معنی تک ان کو معلوم نہیں تھے مگر تبرعا میں نے اس کے معنی بیان کئے کہ محال اس کو کہتے ہین جس کے ناممکن ہونے پر کوئی دلیل عقلی قائم ہو اور ممکن وہ ہے جس کے امتناع پر کوئی دلیک عقلی قائم نہ ہو اور ممکن کبھی مستعبد ہوتا ہے اور وہ وہ ہے جس کا وقوع خلاف عادت ہو اور کبھی مستعبد نہیں ہوتا جیسے تمام ممکنات جو دن رات دیکھے جاتے ہیں فلسفی کے نزدیک مستعبد محال نہیں ہوتا خواہ ساری عمر ایک بھی نظیر اس کی دیکھی نہ گئی ہو جب اس سے پوچھا جائے گا کہ اس کا وجود ہو سکتا ہے یا نہیں تو یہی کہے گا کہ ہاں ہوسکتا ہے اس سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ جب ایک چیز کو محال کہا جاوے تو اس کو امتناع کی کوئی دلیل عقلی ہونی چاہئے اور اگر دلیل عقلی قائم نہ ہو تو وہ چیز ممکن رہے گی خواہ مستعبد ہی ہو تو اس قاعدہ سے دلیل آپ کے ذمہ ہے نہ ہمارے ذمہ - اگر آپ دلیل قائم نہ کر سکیں تو ہمارا معدا یعنی معراج کا امکان ثابت ہو جاوے گا اگر آپ کو معراج کے ہونے میں شک ہے توا متناع پر دلیل قائم کیجئے ورنہ ہمارے قول کو مان لیجئے - اگر آپ فلسفی ہیں اور حجت اور دلیل کو سمجھتے ہیں بس صاحبزادے صاحب حیرت میں تھے جواب کچھ بھی نہ تھا مگر وہ ہی کہے جاتے تھے کہ ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی - فلسفہ جدید کی حقیقت : یہ فلاسفر ان زمانہ کی عقلیں ہیں دوسرے کی نہ سمجھتے ہیں نہ سنتے ہیں اپنی ہی کہے جاتے ہیں اور پھر اپنے ہی آپ کو عقلمند بھی سمجھتے ہیں ان لوگوں کا یہ عجیب سوال ہوتا ہے کہ نظیر کی ضرورت ہے اگر نظیر کی ضرورت ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ وہ بھی ایک واقعہ ہے - آیا اس کے لئے نظیر کی ضرورت ہے یا نہیں - اگر نہیں تو وجہ فرق کیا اور اگر ہے تو پھر اس نظیر میں بھی گفتگو ہوگی - اس کا کہیں انتہا نہ ہوا تو تسلسل لازم آوے گا اور اگر انتہا ہوگیا تو اس اس نظیر اخیر اور اس واقعہ مبحوث عنہا میں آخر کیا فرق ہے - یہ آج کل کا فلسفہ ہے لوگوں کو یہی معلوم نہیں کہ فلسفہ کس چیز کا نام ہے - آج کل کا فلسفہ مادیات سفایہ کے ترکیب و تحلیل یعنی ضائع