ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
میں سورہ قیمہ پڑھی - بعد نماز بیان فرمایا کہ میں نے سورہ نوح شروع کی اور شروع کرتے ہی ایک اعرابی کا قصہ یاد آیا کہ اس کے امام نے سورہ نوح شروع کی تو اس کو انا ارسلنا نوح الی قومہ کے آگے ایسا متشابہ لگا کہ کئی بار لوٹایا مگر نہ چل سکا تو اعرابی نے پیچھے سے کہا اذا کم یکف نوح فارسل مکانہ اخر یعنی جبکہ نوح کے بیجھنے سے کام نہیں چلتا ہے تو اور کسی کو بیھجو - یہ قصہ یاد کر کے میری قوت واہمہ نے کہا کہیں میں بھی نہ بھول جاؤں - بس قور واہمہ ہی غالب آگئی اور بھول گیا - 5 ذیقعدہ 1332 ھ روز یکشنبہ مجلس شصت و پنجم ( 65 ) بلا سنتیں پرھے امامت کرنا : ظہر کے لئے وضو کیا تو وقت جماعت کا ہوگیا - لہذا حضرت والا نے بلا سنتیں پڑھے ہوئے امامت کی - راقم نے بعد نماز دریافت کیا کہ امام نے اگر سنتیں نہ پڑھی ہوں وامات کرنے میں کشھ حرج تو نہیں - فرمایا میں نے مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا تھا تو فرمایا کچھ حرج نہیں - راقم کہتا ہے کہ حضرت والا اوقات کے ایسے پابند ہیں کہ نظیر کا ملنا مشکل ہے - تمام دن و رات کے اوقات ایسے تقسیم کئے ہوئے ہیں کہ ایک لحظہ بیکار نہیں رہتا - لیکن ساتھ ہی اس کے وقتوں کی پابندی عامیانہ اور جاہلانہ نہیں جیسے بعض جگہ دیکھا کہ صف میں بیٹھے ہیں اور نظر گھڑی پر ہے - ادھر گھنٹہ بجنا شروع ہوا اور ادھر تکبیر ہوئی اور اس پر لڑتے مرتے ہیں - حضرت والا کے یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ تو لہو ولعب ہے - عارف کی نظر ہر کام میں حقیقت پر ہوتی ہے اور زوائد کو بقدر ضرورت اختیار کرتا ہے - پابندئ وقت کوئی مقصود بالذات فعل نہیں - انتظام جماعت کے لئے ذریعہ ہے اسکو مقصود قرار دے لینا - حقیقت نا شناسی ہے - حضرت والا کی مسجد میں قصبہ کے نمازی ایک دو سے زائد نہیں ہوتے کیونکہ یہ مجسد ایک کو نہ پر ہے تمام جماعت طلبہ اور خدام مدرسہ اور مہمانوں کی ہوتی ہے - یہاں دو چار منٹ وقت ادھر ادھر ہو جانے سے کسی کا حرج نہیں ہوتا - اس واسطے حضرت والا کی عادت ہے جب گھڑی میں وقت ہو گیا تو ادھر ادھر دیکھ لیتے ہیں کہ سب لوگ تیار ہیں یا نہیں - اگر تیار نہ ہوں تو دو چار منٹ کا کچھ خیال نہٰں فرماتے حتیٰ کہ رمضان میں اذان مغرب