ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
واضح ہو کہ پیغبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کامل پیرو جب کمال اتباع کی وجہ سے مقام نبوت کے کمالات کو تمام کر لیتے ہیں - ( یعنی عروج و نزول پورا ہونے کے بعد نائب پیغبر ہوجاتا ہے ) ان میں سے بعض کو منصب امامت پر سر فراز فرماتے ہیں اور بعض کے لئے محض ان کمالات کے حصول پر اکتفا فرماتے ہیں ( یعنی کوئی منصب ان کو نہیں دیا جاتا ) یہ دونوں بزرگ اصل کمال میں برابر ہیں - فرق منصب ملنے اور نہ ملنے کا ہے - اور جو امور متعلق اس منصب کے ہیں ان کے حاصل ہونے اور نہ ہونے کا فرق ہے اور جب متبعین کاملین کمالات ولایت کو بتما مہا حاصل کرلیتے ہیں ان میں سے بعض کو منصب خلافت کے ساتھ مشرف فرماتے ہیں اور بعض کے کئے صرف ان کمالات کے حصول پر اکتفا فرماتے ہیں جیسا کہ اوپر گزرا یہ دونوں منصب یعنی منصب امامت و منصب خلافت کمالات اصلیہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور کمالات ظلیہ میں منصب امامت کے مناسب منصب قطب ارشاد ہے اور منصب خلافت کے مناسب منصب قطب مدار ہے گویا یہ دونوں مقام کے تحت میں ہیں ظل اور عکس ان دو مقام کے ہیں جو اوپر ہیں اور قطب کو باعتبار اس کے اعوان وانصار کے قطب الاقطاب بھی کہہ دیتے ہیں کیونکہ قطب الاقطاب کے اعوان وانصار قطب حکمی ہیں اسی وجہ سے صاحب فتوحات مکیہ لکھتے ہیں ما من قریۃ مومنۃ کانت او کافرۃ الا وفیھا قطب یعنی کوئی آبادی نہیں مسلمانوں کی یو یا کفار کی مگر اس میں ایک قطب ضرور ہے - جاننا چایئے کہ صاحب منصب بیشک صاحب علم ہے کہ اس کو اپنے منصب کی خبر ہے اور جو شخص منصب کے کمالات تو رکھتا ہے مگر منصب نہیں رکھتا ضرور نہیں کہ وہ اس کا علم رکھتا ہو اور اپنے مراتب پر مطلع ہو اور جو بشارت عالم غیب سے پہنچتی ہے وہ اس مقام کے کمالات کے حاصل ہونے کی ہے نہ اس مقام کے منصب کی بشارت کہ وی متعلق علم سے ہے - انتہی نقل المکتوب قطبیت وغیرہ کی توضیح ایک مثال سے : اس مضمون کی توضیح اس مثال سے ہوسکتی ہے کہ ایک مدرسہ میں بطریق جماعت