ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
مبدل نہ راحت وجیمعت ہوں کہ دعاء مسنون ہے غرضیکہ جب تک وہ تشویشات وبلیات باقی رہیں تفویض تو فرض ہے اور دعاء مسنون ہے اور جب وہ زائل ہوجائیں شکر واجب ہے ۔ اور دونوں حالتوں میں بقدر وسع مشغول رہنا ادب طریق ہے عدم زوال پریشانی و مصیبت کا علاج تنگی اور مصائب کے دور ہونے کا ارادہ ہی چھوڑ دیا جائے بلکہ موجودہ پریشانی ہی کیلئے اپنے کو آمادہ کرلیا جائے ۔ پس دو چیزوں کا التزام کر لیا جائے دعا زوال مصیبت کی اور استغفار ، اور ثمرات کو آخرت میں سمجھا جائے ، بس یہ علاج ام العلاج ہے جس میں علاج ہی مقصود ہے صحت مقصود نہیں ۔ نمازوں میں حرکت فکریہ کے قطع کرنے کی تدبیر جماعت کی حالت میں اور بالخصوص سر واحد اور جمع دونوں صیغوں سے دعائیں منقول ہونی کی مصلحت واحد کے صیغہ میں الحاح کی مصلحت زیادہ ہے اور جمع کے صیغے میں دوسروں کے شریک کرلینے سے اقربیت الی الاجابہ کی مصلحت زیادہ ہے جس وقت جس کیفیت کا غلبہ زیادہ ہو اس کا اتباع کیا جائے ۔ اور میرا ذوق یہ ہے کہ اول ہر دعا میں منقول کا اتباع کیا جائے کہ اقرب الی الادب ہے ۔ پھر اس دعا کے تکرار میں ذوق وقتی کا اتباع کرے کہ دونوں مجمتمع ہوجائیں ۔ طبعی تسلی و قرار کی کوئی صورت نہ ہونے کا علاج مطلوب ومامور بہ عقلی و اعتقادی قرار ہے اور یہی تفویض ہے جس کو عبادت سمجھ کر اخیتار کیا جاتا ہے ۔ نہ کہ ذریعہ راحت سمجھ کر ۔ بلکہ عارفین کاملین نے جب تفویض میں لذت طبعیہ محسوس کی تو نہایت ابتہال کے ساتھ اس لذت سے پناہ مانگی ۔ ایک یہ کہ شوب لذت سے شبہ ہوتا ہے اخلاص کی کمی کہ حظ نفس کے واسطے تفویض کو اختیار کیا ۔ حق تعالٰٰی کا حق سمجھ کر اخیتار نہیں کیا ۔ دوسرے جہاں دینی و دنیوی کامیابی ونا کامی کے متعلق حدیثوں میں تصریح ہے کہ اول میں اجرنا تمام اور ثانی میں اجر تام عطا ہوتا ہے