ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
ف جو شخص صرف حاجت پوارا کرنے کو نعمت سمجھتا ہے وہ محبوب ہے بلکہ اصل نعمت مولے کی توجہ اور التفات اور اس کا جواب وخطاب ہے اور اللہ تعالٰٰی سے کلام وسلام اور سوال وجواب اور رضا ہی کانام تو وصول ہے ۔ ہاں وصول کے درجات میں کسی کو اعلی درجہ حاصل ہے اور کسی کو ادنی مگر کوئی مومن وصول سے محروم نہ رہے گا یہی وہ دلایت وہ ولایت عامہ ہے جو ہر مسلمان کو حاصل ہے واللہ الی الذین امنوا الایھ کبر کی حقیقت اور ماتحتوں کیساتھ وقوع کبر کا علاج ایک صاحب نے کبر کی حقیقت کے متعلق سوال کیا اور یہ بھی لکھا کہ اپنے ماتحتوں پر اگر زیادتی ہوجائے تو ان سے معافی مانگنے میں مصالح فوت ہوتے ہیں اس کا جواب حسب ذیل ارقام فرمایا ۔ کبر کی حقیقت ہے اپنے کو دوسرے سے بڑا سمجھنا اس طرح سے کہ اس دوسرے کو حقیر سمجھے پھر اس بڑے سمجھنے میں درجہ ہیں ۔ ایک بے اختیار بڑائی کا آنا اور ایک بالا ختیار ایسا خیال کرنا پھر اول میں دو درجے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس خیال کے مقتضاء پر عمل نہ کرنا یہ مذموم نہیں ۔ دوسرے اس پر عمل کرنا یہ یہ مذموم ومعصیت ہے ۔ اسی طرح قصدا بڑا سمجھنا یہ بھی علی الاطلاق مذموم ہے گو اس کے مقتضاء پر عمل بھی نہ ہو ۔ امر ثانی کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر ہم صریح الفاظ سے معافی مانگیں گے تو یہ گستاخ ہوکر زیادہ نافرمانی کرے گا ۔ بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ شرمندہ ہوگا ۔ یہ اس وقت تک عذر ہے جب اس سے تعلق رکھنا چاہیں ۔ ان صورتوں میں تو صرف اس کو خوش کردیا امید ہے کہ قائم مقام معافی کے ہوجائیگا ۔ اور اگر اس سے تعلق ہی رکھنا نہیں مثلا ملازم کو موقوف کردیا ۔ یا وہ خود چھوڑ کر جانے لگا ۔ اس وقت ضروری ہے کہ زیادتی ہوجانے کی صورت میں اس سے صریح معافی مانگی جائے کیونکہ یہاں دونوں عذر نہیں اس میں اگر رکاوٹ ہوتو میرے نزدیک اس کا سبب ضرور ہے اور اگر کبر کی تقسیم کو کوئی قبول نہ کرے تب بھی ظلم تو ہوا ۔ جس سے معافی مانگنا واجب ہے تو معافی نہ مانگنے میں اگر کبر کا گناہ نہ ہوتو ظلم کا تو ہو ۔ فرمایا کہ جو تشتت تحصیل جمیعت میں ہو وہ اثر میں جمیعت ہی ہے ۔ مضر نہیں ۔