ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
کرے کیونکہ کثرت سے ہنسنا بولنا مضر ہے ۔ چنانچہ حدیث ہے ایاک وکثرۃ الضحک فان کثرۃ الضحک تمیت القلب ۔ یعنی اپنے آپ کو زیادہ ہنسنے سے بچاؤ کیونکہ ہنسنے کی کثرت قلب کو مردہ کر دیتی ہے ۔ واقعی زیادہ بولنے سے دل نے رونق ہوجاتا ہے ۔ جیسے اگر ہانڈی میں ابال آئے اور اس کی روک تھام نہ کی جائے تو بس سارا مصالحہ نکل جائے گا اور ہانڈی پھیکی رہ جائے گی اگر اچھی اچھی باتیں بھی بلا ضرورت کیجائیں تو ان کا بھی یہی اثر ہوتا ہے ۔ مباحات میں شرط اعتدال فرمایا کہ جو شخص فضولیات میں مشغول ہوگا عادۃ وہ ضروریات میں ضروری کوتا ہی کرے گا اور صرف ہنسنا بولنا ہی نہیں بلکہ جتنے بھی مباحات ہیں ان سب کی کثرت مضر ہے لیکن اگر کثرت نہ ہو بلکہ مباحات میں اعتدال کے ساتھ اشتغال ہو تو پھر وہ بجائے مضر ہونے کے نافع ہیں خصوص جب وہ اشتغال کیسی مصلحت پر مبنی ہو کیونکہ اس اشتغال سے طبیعت میں نشاط ہوتا ہے اور نشاط سے طاعات میں اعانت وسہولت ہوجاتی ہے ۔ اشتغال بہ مباحات کا درجہ مضرت فرمایا کہ جس وقت مباحات کے اشتغال سے قلب کے اندر کدورت پیدا ہونے لگے تو سمجھ لے اب مضرت کا درجہ پہنچ گیا ہے فورا الگ ہوجائے لیکن یہ معیار اس کیلئے ہے جس کے قلب کے اندر صحبت شیخ اور التزام واہتمام ذکر وطاعات سے احساس پیدا ہوگیا ہو باقی مبتدی اپنے لئے بطور خود کچھ تجویز نہ کرے بلکہ شیخ سے اپنی ہر حالت کی فردا فردا اطلاع کرکے ہرحالت کے متعلق جزئی طور پر طریق عمل دریافت کرتا رہے اور جس حاجت کے متعلق جو طریق عمل وہ تجویز کرے اسی پر کار بند رہے ۔ صرف اطفال طریق کی تربیت کی جاتی ہے فرمایا کہ کیفیات کا درجہ تو بس ایسا ہے جیسے شروع میں بچوں کو پڑھانے کا شوق دلانے کیلئے مٹھائی دیتے ہیں ۔ یہی مراد ہے حضرت جنید کے اس قول سے تلک خیالات تربی بھا اطفال الطریقہ یعنی مبتدیوں کو جو اطفال طریق ہیں راہ پر لگانے کیلئے ذوق و شوق وغیرہ کی کیفیات عطا فرما دی جاتی ہیں ۔