ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
خلاف ہونے سے ہے ۔ اب حضرت تحریر فرماکر مطمئن فرمائیں کہ یہ کوئی مرض تکبر وغیرہ ہے یا خلاف عادت ہونے کا عار ہے نیز علاج تحریر فرمائیں ۔ تحریر فرمایا دونوں احتمال ہیں لیکن علاج تو شبہ مرض میں بھی احتیاط کی بات ہے اور علاج ہے وہی بہ تکلف خلاف نفس کرنا ۔ تدارک کمیت میں تماثل ضرور نہیں اپنے سارے اعمال میں عدم اخلاص کے شبہ وقلق کا جواب اپنے نفس سے سوال کرو کہ اس کوتاہی کا تدارک اختیاری ہے یا غیر اختیاری ظاہر ہے کہ اختیاری ہے ورنہ شکایت اور قلق ہی بے معنی ٹھہرتا ہے جب اختیاری ہے تو اب ماضی پر حسرت انفع واہم ہے یا مستقبل میں تدارک ۔ سو ظاہر ہے کہ شق ثانی ہی متعین ہے بس تو اس کے اہتمام میں مشغولی ہونا چاہیئے اور شاید کسی کو پریشانی میں یہ وہم ہوکہ کو تاہی کی عمر تو اتنی دراز اگر تدارک کیلئے اتنا دراز وقت نہ ملا تو تدارک کیسے ہوگا ۔ سوحل اس کا یہ ہے کہ تدارک کا کمیت میں تماثل کافی ہے اور وہ بھی اختیاری ہے اور اختیاری کے ساتھ سہل بھی ۔ اب اس تدارک کی تعین باقی رہی اور اس میں کوئی کلام بھی نہیں ہوسکتا کہ عدم اخلاق کا تدارک صرف اخلاص ہے پس ماضی پر استغفار کرکے مستقبل میں اخلاص اختیار کیا جائے جو نہایت سہل تدبیر ہے بلا ضرورت مشقت وتعب میں پڑنے کی ضرورت نہیں گفت آساں گیر برخور کارہا کزروے طبع نخت می گیرو جہاں بر مرد مان سخت کوش چنانچہ حدیث شریف میں ہے من شاق اللہ علیہ میں بھی دعا کرتا ہوں تحصیل کی بھی تکمیل کی بھی تعدیل کی بھی تسہیل کی بھی ۔ حال : جواب گرامی حسب توقع جامع بھی تھا اور شافی بھی تھا اب عرض یہ ہے کہ خود اخلاص کا معیار کیا ہے یعنی قلب کو یہ اطمینان کیسے ہو کہ فلاں عمل خلصۃ لوجہ اللہ صادر ہوا ہے تحریر فرمایا جواب کے پسند آنے سے دل خوش ہوا اس کے ساتھ معیار اخلاص کے متعلق سوال کرنے سے ایک مشہور شعر یاد آگیا ہے باسا یہ ترانمی پسندم عشق است وہزار بد گمانی انطباق کی تقریر یہ ہے کہ اخلاص کی حقیقت معلوم چنانچہ سوال میں اس کو ظاہر کردیا گیا ہے کہ فلاں عمل خالصا لوجہ اللہ صادر ہوا ہے پھر وہ حقیقت چونکہ مثل صفات نفس کے ہے جن کا علم حضوری ہوتا ہے