ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
مواظبت کسی عذر سے ہو ۔ ایک طالب علم نے لکھا کہ احقر جب بھی کوئی اچھی چیز کسی کے پاس دیکھتا ہے تو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر میرے پاس ہو تو اچھا ہو ۔ پھر کوشش کرتا ہوں کہ وہ چیز مجھے کسی طرح سے حاصل ہوجائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں حرص دنیا ہے ۔ اگر میرے خیال صحیح ہو تو علاج ارشاد فرمایا جائے اس حسب ذیل جواب ارقام فرمایا ۔ مرض تو نہیں مگر مفضی الی المرض ہونے کا احتمال ہے علاج اس کا یہ ہے کہ بجز داس تمنا کے یہ عزم کیا جائے کہ اگر یہ چیز مجھے مل گئی فورا کسی کو ہبہ کردوں گا خصوص اس شخص کے پاس ایسی چیز پہلے سے موجود ہے یا اگر اس سے ایسی بے تکلفی نہ ہوئی تو کسی دوسرے کو دے دوں گا ۔ اگر وہ چیز اتفاق سے اپنی ضرورت کی ہوئی تو اس کی دام مساکین کو دیدوں گا جب تک ایسی تمنا زائل نہ ہوگی ۔ ایسا ہی کیا کروں گا اور دعا بھی کرتا ہوں ۔ ایک طالب نے لکھا کہ نماز اور ذکر کے قبل اور بعد اکثر یہ خیال آتا رہا کہ اتنی محنت بے کار ہے میں کوئی بزرگ تو ہو نہیں سکتا ۔ رہے احکام اس کی پابندی کرلی جائے تو اس کیلئے زیادہ فر کی کیا ضرورت ہے کیونکہ بخشائش تو رحمت پر منحصر ہے الخ ۔ جواب تحریر فرمایا کہ ایک علاج یہ سوچنا ہے کہ اعمال صرف مغفرت ہی کیلئے نہیں بلکہ مالک کا حق ہے مملوک پر اور مغفرت مستقل تبرع وعنایت ہے ۔ ایک طالب نے لکھا کہ مجھے دین و دنیا کے متعلق یہ ہوس ہوا کرتی ہے کہ جو چیز اور جوبات ہو وہ اعلیٰ درجہ کی ہو اور اس میں ہر فن میں سب سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ اس کا یہ علاج تحریر فرمایا کہ جس دنیوی چیز کی تمنا ہو اس کے فنا کا استحضار کرو تاکہ اس کا ہیچ اور بے نتیجہ ہونا مستحضر ہو ۔ اور اگر وہ دین میں مضر ہوتو اس کے نتیجہ بد کا استحضار کرو اس مراقبہ کے بار بار استعمال کرنے سے یہ ہوس مضمحل ہوجائے گی ۔ اور اگر وہ امر دینی ہے تو اس کی تمنا محمود ہے اس کے علاج کی ضرورت نہیں ۔ البتہ شرط یہ ہے کہ جس کو وہ نعمت عطا ہوئی ہے اس زائل ہونے کی تمنا نہ ہو ، ورنہ حسد و حرام ہے ۔ اگر خدانا کردہ ایسا ہو تو اس کے متعلق مستقل سوال کیا جائے ۔ باقی اعتدال کی بھی دعا کرتا ہوں ۔ فرمایا کہ ریا ہر خیال کا نام نہیں ، بلکہ جس خیال کی بنا قصد رضائے خلق بذریعہ دین ہو ۔