ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
قلب کو قوت ہوتی ہے ۔ اور وساوس کو قبول نہیں کرتا ۔ بہت جلد قطع ہوجاتے ہیں اور حقیقت میں جب اس میں گناہ نہیں تو پھر پریشانی کیوں ہو گو بطعی حزن وغم مذموم نہیں ۔ بلکہ یہ ایمان کی علامت عقلا بے فکری کو بہر غالب رکھنا چاہئے ۔ تاکہ وہ حزن طبعی مضمحل ہوجائے اور موجب پریشانی نہ ہو ۔ تخیلات فاسد کا علاج تخیلات فاسد کا تو سہل علاج یہ ہے کہ جب ایسے تخیلات کا ہجوم ہو اپنے قصد واختیار سے کسی نیک خیال کی طرف متوجہ رہنا چاہئے ۔ اس کے بعد بھی اگر تخیلات باقی رہیں یا نئے آئیں ان کا رہنا یہا آنا یقینا غیر اختیاری ہے کیونکہ مختلف قسم کے دو خیال ایک وقت میں اختیار اجمع نہیں ہوسکتے اور اگر بالاختیار اچھے خیال کی طرف توجہ کرنے میں ذہول ہوجائے جب متنبہ ہو ذہول کا تدراک تو استغفار سے کرے اور پھر اسی تدبیر استخضار سے کام لیا جائے ۔ یہ طریق عمل اس قدر سہل کوئی چیز ہی نہیں ، اس کو دستور العمل بنا کر بے فکر ہوجانا چاہیے ۔ فرمایا کہ سالک کو خطرات منکرہ کی بناء پر اپنے کو مردود نہ سمجھا چاہیے کیونکہ ان خطرات کوتو شیطان قلب میں ڈالتا ہے لہذ سالک بے چارے کا کیا قصور بلکہ اس کو تو جو ناگورای کی وجہ سے اذیت ہو رہی ہے اس کا اس کو اجر ملے گا ۔ غالب عادۃ اللہ یہی ہے کہ بعد وصول تام خطرات فنا ہوجاتے ہیں ۔ اگر بمقتضائے اسباب ومصالح خاصہ پھر بھی فنا نہ ہوں تب بھی کچھ غم نہ کرے کیونکہ خطرات غیر اختیار یہ پر مطلق مواخذہ نہیں ۔ فرمایا کہ خطرات داخل قلب میں واقع نہیں ہوتے بلکہ ان کا اثر اور محض انعکاس ہوتا ہے کیونکہ داخل قلب میں واقع ہونے کی چیز تو صرف عقیدہ راسخہ ہوا کرتا ہے نہ کہ خطرہ جو ایک محض وہمی اور سطحی چیز ہے اور کچھ نہیں ۔ فرمایا کہ شیطان اسی قلب میں وسو سے ڈالتا ہے جس میں ایمان ہوتا ہے جیسے چورو ہیں گھستا ہے جہاں مال متاع ہوتا ہے ۔ بس یہ سمجھنا چاہئے کہ خطرات مومنین ومقبولین ہی کو ہیش آتے ہیں کافرین ومردو دین کو پیش نہیں آتے ۔ فرمایا کہ خطرات منکرہ کو عقلا منکر سمجھا جائے اور اپنے اختیار کو ان سے ہر گز متعلق نہ ہونے