ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
قیود لگانے سے شوق و محبت کا امتحان منظور ہوتا ہے ( ملفوظ 31 ) خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت دیوبند سے ایک قاری صاحب ( ان سے تعارف نہ تھا ) آئے ہیں وہ حضرت والا سے کچھ زبانی عرض کرنا چاہتے ہیں ۔ فرمایا کہ اس کی اجازت دینے میں مجھے کلام ہے اس واسطے کہ سلیقہ لوگوں میں آج کل ہے نہیں نہ معلوم میں کیا پوچھوں وہ کیا کہیں خواہ مخواہ بے لطفی ہو ۔ عرض کیا کہ حالات باطنی کے متعلق کچھ عرض کرنا نہیں ، فرمایا کیا کسی اور چیز میں پریشانی نہیں ہو سکتی اور کیا یہ صبح کا معاملہ طالب علم کا حالت باطنی کے متعلق تھا جس کا ابھی ذکر تھا آپ نے تو سارا ہی قصہ سنا ہے ۔ لیجئے جب آپ نے یہ بات شروع کرائی اور ذکر کیا تو کہتا ہوں ان کی پہلی کوتاہی سن لیجیئے جو بات یہاں پر آ کر پوچھی جاتی ہے یہ بذریعہ خط دیوبند میں رہتے ہوئے پوچھ سکتے تھے ۔ بسم اللہ ہی غلط اب فرمائیے آئندہ کیا سلیقہ کی امید ہو سکتی ہے اس کے تو یہ معنی ہوتے کہ اپنے تابع بنانا چاہتے ہیں کہ وہ پہنچ جائیں گے تو اجازت ہو جائے گی ، میں بے اصول بات کرنا نہیں چاہتا اور میرا تو اس میں کوئی حرج نہیں ان ہی کی مصلحت سے کہہ رہا ہوں ۔ خیر اگر زبانی ہی کہنا چاہیں کہیں مگر اس شرط سے کہ اگر الجھن کی بات نہ ہوئی تو زبانی گفتگو کرنے کی اجازت دے دوں گا اور اگر الجھن کی ہوئی تو اجازت نہیں دوں گا ، پھر خط و کتابت سے طے کریں کیونکہ اگر اس میں کوئی گڑبڑ ہوئی تو ستانے کو سامنے تو نہ ہوں گے اور اسلم صورت تو یہ ہے کہ واپس دیوبند جا کر وہاں سے خط لکھیں ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ اگر حوض والی مسجد میں جا کر قیام کریں اور وہاں سے حضرت کی خدمت میں خط بذریعہ ڈاک روانہ کریں اس کی اجازت ہے ، فرمایا کہ اجازت ہے حوض والی مسجد ہی سے سہی خوب آپ نے بھی خوض کیا ، ایسی قیود سے میرا مطلب تو حاصل ہے تا کہ میں بھی تو دیکھ لوں کہ کس قدر تعلق اور کتنی محبت ہے شوق کا امتحان سوق ہی سے ہوتا ہے ۔ تقید ایک قسم تقیید اور سوق ہی ہے ( سوق کہتے ہیں ہنکانے کو ) ۔ جھوٹ بولنے کا علاج ( ملفوظ 32 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک خط آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ مجھ کو جھوٹ