ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
خوف کرے گا اس وقت اس کی دو حیثیتیں ہوں گی ایک تو شاہی عطیہ ہونے کی اور ایک اس کو عطا ہونے کی تو کیا وہ اپنے کو موتی والا نہ کہے گا ، موتی والا ضرور کہے گا اگر نہ کہے گا تو عطیہ شاہی کی بے قدری اور ان کا الزام آئے گا مگر ساتھ ہی میں یہ بھی کہے گا کہ بادشاہ کی بڑی عنایت ہے کہ مجھ جیسے نااہل کو اتنی بڑی قیمتی چیز عطاء فرما دی ۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور ہم متکبر نہیں اس کو اپنا کمال سمجھنا تکبر ہے اور خدا کا عطیہ سمجھنا تواضع ۔ بس یہ خیال کر لے کہ یہ ہماری چیزیں نہیں خدا کی چیزیں ہیں جیسے شجاعت ہے حسن ہے ان کو اپنا کمال سمجھنا اور فخر کرنا تکبر ہے ان چیزوں کو خدا کی سمجھنا اور ان پر ناز نہ کرنا یہ تواضع ہے ۔ حضرت حاجی صاحب اور صوفیاء کی عظمت ( ملفوظ 494 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو تقریر کے وقت جوش ہوتا تھا ، آواز بلند ہو جاتی تھی اور تقریر سے فراغت کے بعد بے حد ضعف ہو جاتا تھا مگر تقریر کے وقت یہ حالت ہوتی تھی : ہر چند و خستہ و بس ناتواں شدم ہر گہ نظر بروئے تو کردم جواں شدم اور کیوں نہ ہو فرماتے ہیں : خود قوی ترمی شود خمرکہن خاصہ آں خمرے کہ باشد من لدن ( وہ جوش اور قوت اور ہی کسی چیز کی بدولت ہے یہ وہ دولت ہے کہ بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ) ۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر بادشاہوں کو اس دولت کی خبر ہو جائے تو " لجادلونا بالسیوف " یعنی تلوار لے کر ہم پر چڑھ آئیں کہ لاؤ ہم کو بھی دو کیا لیے بیٹھے ہو مگر خبر نہ ہونا مضر نہیں البتہ انکار نہ کرنا یہ سخت خطرناک چیز ہے ۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس طریق کا انکار نہ کرے چاہے معتقد بھی نہ ہو بلکہ یہ طریق اس قدر باوقعت اور باعظمت ہے کہ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ اگر کوئی اس طریق کو مکرر و ریاء کی وجہ سے بھی اختیار کرے اس کی بھی قدر کرے اس لیے کہ اس کے دل میں اس طریق کی عظمت ہے تب ہی تو اس کو لیا گو مکر ہی سے سہی سو اس کو بھی حقیر مت سمجھو کیونکہ جس چیز کی قلب میں وقعت و عظمت نہیں ہوتی آدمی اس کو کسی طرح بھی اختیار نہیں کرتا ۔ دیکھئے ان حضرات میں حقائق کی کس قدر دقیق رعایت ہے