ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
ایسے مضامین جو کہ طالبین کے حالات کے موافق ہوں طالبین انتخاب کر سکتے ہیں پھر وعظوں کے متعلق فرمایا کہ مجھے جب کوئی شخص بیعت کی درخواست کرتا ہے تو میں اول اس کو یہ ہی لکھتا ہوں کہ میرے مواعظ کو دیکھو اور اس سے جو حالت میں تغیر ہو اس سے اطلاع دو اس طرح پر وہ نفع ہوتا ہے کہ دس برس کے مجاہدہ پر بھی نہیں ہوتا میں نے تو ایک مرتبہ خواجہ صاحب سے کہا تھا کہ میں تو اول ہی دفعہ میں طالب کو خدا تک پہنچا دیتا ہوں ، مراد اس سے یہ ہے کہ اول ہی روز طالب کے سر پر فکر سوار کر دیتا ہوں کہ جب فکر ہوتی ہے تو خود راستہ تلاش کرتا ہے اس جویائی اور فکر کی بدولت فضل خداوندی دستگیری کرتا ہے راہ پر لگ جاتا ہے ۔ یہی حقیقت ہے اس طریق کی جس کی بدولت بندہ کو تعلق مع اللہ صحیح معنوں میں حاصل ہو جاتا ہے اور یہ سب تدابیر کا درجہ ہے جس سے مقصود تک رسائی ہوتی ہے باقی اوراد وہ اصلی تدابیر بھی نہیں ، صرف معین مقصود ہیں ۔ یہ جہلا نے خلط کر رکھا ہے کہ مقصود کو غیر مقصود اور غیر مقصود کو مقصود سمجھنے لگے بحمد اللہ اب فن تصوف صدیوں کے لیے صاف ہو گیا ۔ 13 شوال المکرم 1350 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم یک شنبہ آہستہ بات کرنے پر مواخذہ ( ملفوظ 235 ) ایک صاحب نے تعویذ مانگا مگر نہایت آہستہ آواز سے اور یہ بھی نہیں کہا کہ کس ضرورت کے لیے تعویذ چاہیے ۔ حضرت والا نے فرمایا کہ کیا تم عورت ہو عورت کی آواز تو بے شک عورت ہوتی ہے اس کو آہستہ بولنا چاہیے کوئی کبھی آواز سن کر عاشق نہ ہو جائے اس کے زور سے بولنے میں فتنہ ہے اس لیے زور سے نہ بولنا چاہیے مگر تم کو کیا ہوا ، کیا عادتیں خراب ہو گئی ہیں میاں زور سے بولو کیا سب نے قسم ہی کھا رکھی ہے کہ ضرور دق کریں گے اگر آدمیوں کی طرح خدمت لی جائے میں خدمت کو حاضر ہوں ، پریشان کر کے کام لینا یہ کون سا طریقہ ہے پریشان کرنا اور خدمت لینا یہ آدمیت نہیں یہ تو حیوانیت ہے پھر ذرا آواز سے عرض کیا کہ تعویذ دے دو ، فرمایا کہ خیر بولے تو مگر بات پھر بھی ناتمام ہی کہی اس لیے جو کچھ تم نے کہا میں سمجھا نہیں جب وہ بتلانے پر بھی نہ سمجھے اس پر حضرت والا نے