ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
تو مت بول میں نے تو اپنے کانوں سے سنا ہے ۔ عرض کیا ہے کہ میں نے تو یہ ہی کہا تھا کہ بخار کا ایک اور تعویذ دے دو ، فرمایا بس اس اور ہی کا تو مطلب پوچھ رہا ہوں کہ اس کا کیا مطلب ہے ۔ عرض کیا کہ خطا ہوئی خطا کو معاف بھی تو کر دیا کرتے ہیں ، فرمایا کہ معاف کرتا ہوں انتقام نہ لوں گا بد دعا نہ کروں گا ، لوگوں میں تمہاری بد گوئی برائی نہ کروں گا مگر دل کو تو رنج ہو گیا اور رنج میں کام نہیں ہوا کرتا اور اگر دل کے رنج کے ساتھ کام کر بھی دیا تو اثر نہ ہو گا کیونکہ تعویذ وغیرہ کے اثر میں زیادہ تر دخل توجہ اور نشاط کو ہے ۔ پھر فرمایا معافی کے معنی یہ ہیں کہ انتقام نہ لے یہ معنی تھوڑا ہی ہیں کہ کام بھی کر دے اب دل سے جب اس رنج کا اثر جاتا رہے گا اس وقت کہنا تب کام ہو گا ۔ عرض کیا کہ اب کبھی ایسی بات نہ کہوں گا دریافت فرمایا اور کس طرح کہے گا عرض کیا کہ یوں کہوں گا کہ بخار کے لیے تعویذ دے دو ۔ فرمایا اچھا اس وقت یوں کیوں نہیں کہا تھا ۔ عرض کیا کہ اس وقت طبیعت نے یوں ہی کہا کہ یوں کہنا چاہیے ، فرمایا اب میری طبیعت یوں کہتی ہے کہ جو شخص پریشان کرے ، اس کا کام مت کرو جب تو نے اپنی طبیعت کا چاہا اب میری طبیعت کا چاہنا ہو لینے دو جا ، ایک گھنٹہ کے بعد آنا اور ٹھیک بات کہنا ، اس وقت کی گفتگو کے بھروسہ نہ رہنا مجھے اس وقت کی بات یاد نہ رہے گی اور یہ بھی کہہ دینا کہ مجھ سے فلاں غلطی ہو گئی تھی اب گھنٹہ کے بعد آیا ہوں وہ شخص چلا گیا ۔ فرمایا کہ یوں ان لوگوں کے دماغ درست ہوتے ہیں اب انشاء اللہ کبھی ساری عمر بھی مہمل الفاظ نہ بولے گا ، اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ایک شخص آیا آ کر کہا کہ مولوی جی میرا بھی ارادہ تھا مرید ہونے کا ، میں نے کہا تھا یا ہے غرضیکہ وہ الٹ پلٹ ہو کر چل دیا ، بھائی اکبر علی مرحوم سے ملا ، انہوں نے پوچھا کیا ہوا کہا کہ جی کیا بتلاؤں تھا اور ہے میں پکڑا گیا ۔ حضرت کو قریب سے دیکھ کر لوگوں کا گرویدہ ہو جانا ( ملفوظ 155 ) ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ دور سے تو لوگ حضرت کو سخت خیال کرتے ہیں اور پاس آ کر رعایتیں دیکھ کر گرویدہ ہو جاتے ہیں ، فرمایا کہ جی ہاں واقعی میں تو اتنی رعایتیں کرتا ہوں کہ ان پر نظر کر کے یوں کہا کرتا ہوں کہ مجھ کو لوگ اگر مداہن کہیں تو ایک درجہ میں تو صحیح ہے مگر متشدد کہنا تو بالکل ہی صحیح نہیں ۔ یہاں پر ایک مرتبہ آ جائیں اور کچھ رہیں اولا