ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
اس لیے کہ وہاں پر تو یہ رسم بے تکلفی کے درجہ میں ہے اور یہاں پر کج طبعی کے سبب اس کا نتیجہ آزادی و بے حیائی ہو جائے گا جو چیز حیاء کا سبب ہو اس کو باقی رکھنے کو جی چاہتا ہے مگر یہاں حیاء اور بے حیائی کا امتحان بھی عورتیں بے اصولی کے ساتھ کرتی ہیں ۔ چنانچہ لڑکی کے گدگدی اٹھاتی ہیں اگر وہ ہنس پڑی تو بے حیاء اور نہ ہنسی تو حیاء دار اور ایک حرکت اس امتحان کے لیے اور کرتی ہیں کہ اول شب میں جب دلہا اور دلہن تنہائی میں ہوتے ہیں تو عورتیں کان لگاتی پھرتی ہیں کیونکہ یہاں پر یہ بھی رسم ہے کہ اول شب میں دلہن دلہا سے بھی نہیں بولتی ۔ اگر کوئی بولی تو صبح کو چرچا ہوتا ہے کہ ایسی بے شرم ہے کہ ساری رات میاں سے پڑپڑ بولتی رہی ، یہ عورتوں کا ایسا کرنا تانک جھانک لگانا خود بے شرمی پر مبنی ہے بڑی واہیات بات ہے ۔ محبت ، حسن اور جمال کا معیار ( ملفوظ 207 ) خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت محبت کا کوئی معیار ہی نہیں ، فرمایا کیا معیار ہو سکتا ہے ؟ عرض کیا ایسا ہی حسن ہے نہ اس کا کوئی معیار فرمایا یہ بھی ایسی ہی چیز ہے اس کا بھی معیار مشکل ہے ہاں جمال کا معیار تو ہو سکتا ہے اس لیے کہ جمال تو تناسب اعضاء کو کہتے ہیں جس کا ضابطہ ہے مگر حسن اور محبت کا کوئی معیار نہیں ۔ عرض کیا کہ ایک مولوی صاحب نے مجھ سے کہا تھا اگر حسین چیز کو دیکھو تو اس میں کون سی مضرت ہے ، ایک چیز خوب صورت ہے مثلا لوٹا ہے جو خوبصورت اور حسین بنا ہوا ہے اس کے دیکھنے میں کیا مضرت اور کون سا گناہ ہے ایسا ہی حسین آدمی کو دیکھنا میں نے اس کا جواب دیا جو حضرت ہی کی فیضان صحبت ہی کی برکت سے ذہن میں آیا وہ یہ کہ لوٹا جو خوبصورت ہے اس کے دیکھنے پر اس لیے گناہ نہیں کہ اس سے آگے کسی ناجائز تمتع کی ہوس نہیں ہوتی کیونکہ یہ محل شہوت نہیں ہو سکتا جو سبب بنے مضرت اور گناہ کا مگر دوسری چیز جس سے آگے چل کر تمتع ناجائز حاصل شہوت نہیں ہو سکتا جو سبب بنے مضرت اور گناہ کا مگر دوسری چیز جس سے آگے چل کر تمتع ناجائز حاصل ہو سکتا ہو اس وجہ سے کہ وہ محل شہوت ہے اس کے دیکھنے سے گناہ ہو گا اس لیے ایسی چیز کو لوٹا سے مثال دینا صحیح نہیں ہو سکتی ۔ حضرت والا نے سن کر فرمایا کہ بالکل ٹھیک جواب ہے ماشاء اللہ ۔