ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
کی گنجائش نہیں ۔ چنانچہ میں کہہ دیتا ہوں کہ بد فہموں کی اصلاح کی امید نہیں لہذا میں خدمت سے معذور ہوں تب آنکھیں کھل جاتی ہیں ، فرمایا کہ معترضین اور سب کو معذور سمجھتے ہیں ان کی غلطیوں کی تاویلیں کرتے ہیں اور میری اصلاح کی کوئی توجیہ نہیں کرتے ۔ اجتماع سے طبعی تنفر ( ملفوظ 153 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض لوگوں کا مذاق ہے کہ جماعت کے لوگ جمع رہیں باہم ارتباط رہے مگر چونکہ اس اجتماع کے اغراض فاسد ہوتے ہیں اس لیے مجھ کو اس سے نفرت ہے بلکہ اگر اغراض فاسد بھی نہ ہوں مگر کوئی مصلحت بھی نہ ہو تب بھی انقباض ہوتا ہے جیسے گھر میں آج اوجھڑی پکی تھی سب نے کھائی مگر میں نے نہیں کھائی ۔ جب یہ خیال ہوتا تھا کہ یہ وہی ہے جس میں گوبر تھا جی ہٹ جاتا تھا ، گو جائز ہے بس اسی طرح بد فہموں کے اجتماع سے گو مباح ہی ہو جی گھبراتا ہے ایک دو دوست سمجھ دار فہیم ہوں دل بہلانے کو وہی کافی ہیں ایسے ہی بہت سے افعال مباح ہوتے ہیں مگر مجھ کو ان سے طبعا انقباض ہوتا ہے اور اس کے متعلق ایک حکایت بھی بیان فرمائی کہ ایک مولوی صاحب نے جن کو معتقدین کے ہجوم سے حظ ہوتا تھا میرے اس بیان پر ایک آیت پڑھی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم ہے : و اصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم الخ میں نے کہا کہ اول تو مع الذین یدعون ربھم سے اس مجمع میں خاص قیود معلوم ہوتے ہیں ۔ دوسرے خود اصبر سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتماع آپ کو طبعا گراں تھا کیونکہ صبر کی حقیقت ہے : حبس النفس علی ما تکرہ تو واصبر خود دلالت کر رہا ہے گرانی پر ۔ اجی صاحب آزاد ہی رہنا اچھا ہے دوسرے ہم لوگوں کے نفس کا کیا اعتبار اس کے تو پر قینچ ہی ہوتے رہیں تو سلامتی ہے ایسے سامان کو جمع ہی نہ ہونے دیں جس سے اسے موقع ملے ، ہاتھ پیر نکالنے کا ۔ اسی کو فرماتے ہیں : نفس اژدھا ست اوکے مردہ است از غم بے آلتی افسردہ است اگر ایسے ہی اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور اس کی قوت کے سامان جمع ہوئے ہیں جن میں سے معتقدین کا ہجوم بھی ایک بڑا سبب ہے تو چند روز میں انسان فرعون بن جائے ۔ اس کو فرماتے ہیں :