ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
خودکشی کی دھمکی پر حضرت کا جواب ( ملفوظ 175 ) فرمایا کہ ایک خط آیا ہے لکھا ہے کہ میں خودکشی کرنے کو تیار ہوں اور اب تک کر بھی لیتا اگر حرام نہ ہوتی اگر گھر کو میرے آگ لگ جاتی اولاد مر جاتی تو اتنا رنج نہ ہوتا ان کو کچھ تنبیہ کی گئی تھی یہ اس رنج پر تھا ، میں نے لکھا کہ یہ بتلایا ہوتا کہ میں نے کیا لکھا تھا اور تمہاری وہ کیا بات تھی جس پر میں نے یہ لکھا تھا کیونکہ مجھ کو بالکل یاد نہیں ، لوگ متحمل نہیں تربیت کے محض وظیفوں کو کافی سمجھتے ہیں اور میرے نزدیک وظیفے کافی نہیں ، میری بات کا جواب دینا چاہیے تھا یہ خودکشی کی دھمکی دینا کون سی انسانیت ہے پھر فرمایا کہ اسی پر لوگوں کا دعوی ہے کہ ہم اصلاح چاہتے ہیں ، معلوم بھی ہے کہ اس راہ میں قدم رکھنے کی اول شرط یہ ہے کہ در رہ منزل لیلی کہ خطر ہاست بجان شرط اول قدم آنست کہ مجنون باشی اور اسی کو فرماتے ہیں : تو بیک زخم گریزانی زعشق تو بجز نامے چہ میدانی زعشق ارے اس خودکشی سے کیا ہوتا ہے یہ تو میدان سے بھاگنے والے کی علامت ہے جو دال ہے بزدلی پر ، مرد میدان بن کر آؤ اور نفس کشی کرو اور پھر دیکھو کہ کیا سے کیا ہو گیا اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ گالیوں سے رنج تو ہوتا ہی ہے ( ملفوظ 176 ) فرمایا کہ ایک خط آیا ہے ان صاحب نے پہلے تو گالیاں دے لیں ، اب بہلا پھسلا کر فیض حاصل کرنا چاہتے ہیں ، میں انتقام نہیں لیتا مگر رنج کی بات سے رنج تو ہوتا ہی ہے اور ہم لوگوں کی تو حقیقت ہی کیا ہے کہ رنج نہ ہو ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت وحشی کے ساتھ کیا معاملہ کیا یہ فرمایا کہ ساری عمر صورت نہ دکھانا مگر ہم کو کہا جاتا ہے کہ صاحب معاف کر دینا چاہیے ۔ ان کے باوا کے غلام ہیں کہ گالیاں بھی کھائیں اور چاپلوسی بھی کریں ، ہاں اس حالت میں بھی اس کی ضرورت کا انتظام کر سکتے ہیں ۔ مثلا ایک شخص سے ناراضگی ہو گئی اور اس سے کہہ دیا کہ صورت مت دکھانا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے فلاں جگہ یا فلاں شخص سے اپنی اصلاح کراؤ ۔