ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
کوئ چیز نہیں ایسے ہی کلکٹراپنی کرسی پر بیٹھا ہوا احکام کو اجراء کر رہا تھا کہ دفعتا ویسرائے پہنچ گیا اور اب وہ کلکٹر کلکٹر ہے لیکن ویسرائے کے سامنے گویا اس کا وجود ہی نہیں اب اگر یہ ماتحت حکام ویسرائے کے ہوتے ہوئے اس کا قصد بھی کریں کہ اسی لہجہ اور طنطنہ کا استعمال کریں تو ہو نہیں سکتا بس اس کا غلبہ اور استحضار کا نام وحدۃ الوجود ہے اس میں اپنا وجود بایں معنی فانی ہو گیا کہ ایک بڑی ہستی کے ایسے استحضار سے اس کی طرف التفات ہی نہیں ہوتا گویا وہ وجود رہا ہی نہیں وہی ایک بڑا وجود رہ گیا اس لئے وجود کی وحدت کا حکم کر دیا گیا ۔ دوسری مثال لیجئے کہ ابر میں سے ایک قطرہ پانی کا چلا جس کو اپنی ہستی پر نظر بھی تھی مگر جس وقت سمندر پر آتا ہے ۔ اپنے کو بے حقیقت کا لعدم پاتا ہے ۔ تیسری مثال لیجئے شب میں جگنو کی چمک سب کو معلوم ہے ۔ اسی طرح چراغ کی روشنی کو سب جانتے ہیں لیکن جب آفتاب رو نما ہوتا ہے یہ سب بمنزلہ معدوم کے ہو جاتے ہیں ۔ دن کو چراغ جلائیے اس کے متعلق مثنوی میں ہے کہ چراغ کا شعلہ ہے مگر اس قدر ضیف النور کہ گویا معدوم ہے مختلف اعتبار سے باقی بھی ہے اور فانی بھی ہے یعنی ذات کے اعتبار سے تو باقی ہے اور آثاو انوار کے اعتبار سے فانی ہے یہ ہے وحدۃ الوجود جس کے نام سے لوگوں کو وحشت ہے اور جب اس کی صحیح تفسیر معلوم ہو گئی اب میں کہتا ہوں کہ بدون وحدۃ الوجود کے کوئی شخص مومن کامل ہی نہیں بن سکتا ۔ اس پر اعتراض صرف جہل ہے ۔ اب بحمد اللہ یہ مسئلہ بے غبار ہو گیا ۔ (488) اہل حق کی جماعت میں نظم نہیں ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ بالکل صحیح ہے کہ آج کل اہل حق کی جماعت میں نظم نہیں اہل باطل کی جماعتوں میں نظم ہے لیکن باوجود اس کے کہ اہل حق میں نظم نہیں اس بد نظمی کے ہوتے ہوئے بھی حق تعالی اہل حق کی غیب سے امداد فرماتے رہتے ہیں ۔ (489) حضرات مشائخ چشتیہ عشاق تھے ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرات مشائخ چشتیہ کو بری طرح سے لوگوں نے بد نام کیا ہے ۔ فرمایا کہ جی ہاں آج تک بیچاروں کی کسی نے نصرت ہی نہیں کی اور وہ حضرات فانی تھے ان کو خود اس کی پروا نہ تھی ۔ مگر جواب کی حاجت تھی اس لئے میں نے ایک رسالہ مشائخ چشتیہ کی نصرت میں لکھا ہے ۔ قابل دید رسالہ ہے اس کا نام ہے السنۃ الجلیہ فی