ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
(394) باب معاشرت کی تعلیم سے قرآن وحدیث پر ہیں ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک شخص تابع ہو کر آئے اس کے ساتھ متبوع کا سا معاملہ کیا جائے میں تو اس میں بڑی ذلت سمجھتا ہوں ۔ ایک اس میں یہ بھی خرابی ہے کہ اس صورت میں آنے والے کو کوئی نفع نہ ہوگا جس کے لئے اس نے اپنا وقت اور روپیہ صرف کیا ہے اور یہ ساری خرابی اس کی ہے کہ باب معاشرت کو لوگوں نے دین کی فہرست سے خارج سمجھ رکھا ہے ۔ محض نماز روزہ اور وظائف کو دین سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ باب معاشرت کی تعلیم سے قرآن وحدیث پر ہیں ۔ عوام کی تو کیا شکایت کی جائے علماء اور مشائخ اس بلا میں مبتلاء ہیں ۔ میں ایک تنہا اس پر متنبہ کرتا ہوں مجھ ہی کو بد نام کیا جاتا ہے ۔ مزاحا فرمایا کہ تنبیہ میں ضرورت تھی تنہا کی (کئی تن مراد ہیں ) جو باتیں لوگوں کو مجھ کو ناگوار ہوتی ہیں اگر وہی باتیں دوسروں کو پیش آئیں ان کو بھی ناگوار ہوں ۔ اور پیش بھی آتی ہیں نا گوار ہوتی ہیں مگر ان پر متنبہ نہ کرنے اور روک ٹوک نہ کرنے کی مصلحت بیان کرتے ہیں کہ اگر یہاں پر روک ٹوک کی گئی اور اس پر بد دلی ہوئی تو نہ معلوم پھر کس بد دین کے ہاتھ میں جا پنھسے اور اصل بات جو دل میں ہے اس کو ظاہر نہیں کرتے وہ میں ظاہر کئے دیتا ہوں وہ یہ کہ ہماری جاہ میں قبولیت عامہ میں محبوبیت میں خلل آتا ہے لوگ بد اعتقاد ہوتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں جب آپ نے بھی اصلاح نہ کی تو تمہارے ہی ہاتھ میں پھنسے رہنے سے اس کو کیا فائدہ ۔ جیسے کسی بدعتی کے ہاتھ میں جا کر خراب ہوتا تمہارے ہاتھ میں رہ کر بھی تو خراب ہی رہا ۔ یہ اور بات ہے کہ دونوں خرابیوں کی نوع جد اہو مگر اصلاح تو نہ ہوئی ۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص بلا وضوء کے نماز پڑھ رہا ہے اس کو کہا جائے کہ پڑھنے بھی دو پڑھنا نہ پڑھنے سے بہتر ہے ۔ بہتر کہاں ہے وہ نماز ہی کب ہے کہ اس کا پڑھنا نہ پڑھنے سے بہتر ہو ۔ سب نفسانی اغراض ہیں ۔ ان کو دین کا جامہ پہنا کر اس عنوان سے ظاہر کیا جاتا ہے یہ تو اچھی خاصی مخلوق پرستی ہے ۔ (395) حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سے بچوں کا بے تکلف ہونا ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت والا سے بچے بے خوف رہتے ہیں ذرا نہیں ڈرتے ۔