ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
بزرگوں کے تصرف میں قوت خیالیہ کو دخل ہے ۔ ان دونوں میں فرق کیا ہوا ۔ فرمایا کہ ذات میں تو فرق نہیں اغراض میں فرق ہے جیسے کشتی کا فن ہے کہ دشمن کے پچھاڑنے کے واسطے ہے ۔ یہ تو مشترک ہے ۔ پھر اگر اس سے دوست کو پچھاڑا جائے تو اور حکم ہے اور دشمن کو پچھاڑا جائے اور حکم ہے یہ دونوں میں فرق ہے ۔ باقی حقیقت دونوں جگہ ایک ہے ۔ (266) آجکل کی خوش اخلاقی ایک صاحب کی غلطی پر مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ آج کل خوش اخلاقی کے یہ معنے سمجھے جاتے ہیں کہ دوسرے کا تابع ہو جائے مگر دوسروں کی اصلاح کا کام سپرد ہوتے ہوئے میرا خوش اخلاق ہونا مشکل ہے ۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ میری بد اخلاقی دوسروں کی خوش اخلاقی کا مقدمہ ہے ۔ ہاں مامون رشید کا مذہب اسی متعارف خوش اخلاقی کا تھا ۔ چناچہ یحی ابن اکثم جو بخاری کے شیخ ہیں مامون رشید کے یہاں مہمان ہوئے شب کو کسی ضرورت سے مامون رشید نے اپنے غلام کو آواز دی یا غلام یا غلام ۔ اول تو کوئی بولا نہیں لیکن چند بار کی آواز دینے کے بعد ایک غلام تڑ تڑاتا ہوا اپنے بستر سے اٹھا اور کہنا شروع کیا کہ شب کو بھی آرام نہیں کرنے دیتے ۔ دن بھر تو کاموں میں مشغول رہتے ہیں شب کو بھی یا غلام یا غلام ۔ مار دو غلاموں کو پھانسی دیدو غلاموں کو ذبح کر دو غلاموں کو سنکھیا دیدو غلاموں کو ۔ رات کو بھی چین نہیں حضرت یحی ابن اکثم کو غصہ آگیا اور مامون رشید سے فرمایا کہ اے امیر المؤمنین ان غلاموں کے اخلاق آپ نے خراب کر رکھے ہیں ۔ عجیب جواب دیا کہا کہ اگر ان کے اخلاق درست کروں تو پہلے اپنے اخلاق خراب کرنے پڑتے ہیں سو میری جوتی کو غرض پڑی ہے کہ میں ان کے لئے اپنے اخلاق خراب کروں ۔ سو مصلح کبھی خوش اخلاق مشہور ہو ہی نہیں سکتا بد اخلاق ہی مشہور ہوگا ۔ علاوہ اس کے ایک وجہ میری زیادہ بد نامی کی یہ بھی ہے کہ اور کسی جگہ میں اصلاح اور تربیت کے ذیل میں روک ٹوک محاسبہ معاقبہ ہے ہی نہیں محض اوراد اور وظائف کو طریق سمجھ رکھا ہے اور کیفیات کو ثمرہ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ۔ اعمال طریق ہیں اور رضاء حق مقصود ہے ۔ (267) نفس پروری کے احکام ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب نے جو مجھ سے بے تکلف تھے کہا کہ آپ نفس