ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
ملفوظات حکیم الامت جلد 8 ۔ 14 سمجھ لیجئے کہ علماء کو دنیا کی بعض باتوں کا تجربہ نہیں ہوتا ۔ تجربہ نہ ہونے کو قلت عقل کیسے کہا جا سکتا ہے ۔ اور میں معترض صاحب سے ہی پوچھتا ہوں کہ آپ کو کپڑا بننا آتا ہے کپڑا سینا آتا ہے ۔ کپڑا رنگنا آتا ہے ۔ کپڑا دھونا آتا ہے جواب میں یہی کہا جائے گا نہیں تو پھر اس سے لازم آوے گا کہ ایک جولاہا ایک درزی ایک نیل گر ایک دھوبی کے برابر بھی آپ کو عقل نہیں ۔ اس کا جو جواب تم ہم کو دوگے وہی ہماری طرف سے خیال کر لیا جائے ۔ (219) بعض عقل کے دشمن ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض عقل کے دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ جس کا لباس انگریزی کوٹ پتلون ہیٹ ہو وہ تو قابلیت رکھتا ہے اور جو سادہ اور شرعی لباس رکھتا ہو وہ کم عقل ہوتا ہے گویا لباس قابلیت وعدم قابلیت کا معیار ہے ۔ اس کا ایک واقعہ ہے وہ یہ کہ میں ایک مرتبہ بمعیت اور علماء کے شملہ میں مدعو کیا گیا ۔ اپنی یہی سادہ وضع تھی ۔ کرتا ۔ ٹوپی ۔ پائجامہ ۔ نہ عمامہ نہ چوغہ نہ پٹکا بعد نماز جمعہ میں بیان کرنے کو کھڑا ہوا تو ایک صاحب نے کرنل عبدالمجید خاں سے جن کے نام سے وعظ کا اعلام شائع ہوا تھا کہا کہ یہ آپ کے علماء کا لباس کیسا ہے جیسے پاخانہ سے نکل کر آئے ہوں انہوں نے نہایت متانت سے جواب دیا کہ اس وقت تو بیان شروع ہو گیا وعظ کے بعد کہئے ۔ جب وعظ ہو چکا اب وہ صاح کچھ نہیں بولتے ۔ کرنل صاحب نے کہا اب کہئے کیا کہتے تھے ۔ کہنے لگے میری حماقت تھی میں سمجھا تھا جیسا لباس ہوتا ہے ویسی ہی لیاقت ہوتی ہے مگر بیان سن کر اپنی حماقت کا علم ہوا ۔ یہ بات میرے کان میں بھی پہنچی تھی ۔ اتفاق سے ایک دوسرے جلسہ میں بھی میری ہی تقریر تھی جب میں تقریر پر کھڑا ہوا تو میں نے کہا کہ صاحبو مجھ کو معلوم ہوا کہ بعض حضرات کی یہ رائے ہے کہ واعظوں کو اچھا لباس قیمتی پہن کر وعظ کہنا چاہئے تاکہ لباس سے واعظ کی وقعت ہو اور اس کی وقعت سے وعظ کی وقعت اور اس سے سامعین پر اثر ہو ۔ میں نے کہا کہ بہت اچھی نیت سے یہ رائے دی گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ قیمتی لباس آئے کہاں سے ۔ ظاہر ہے کہ بدون بڑی رقم کے تو آنہیں سکتا ۔ اب یہ رقم کہاں سے آئے سو اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک تو بلاتفاق ہمارے تمہارے ہاں نا جائز ہے ۔ تمہارے نزدیک تو عقلا ہمارے نزدیک شرعا وہ یہ کہ ہم وعظ کے بعد یہ اعلان