ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
ہیں ۔ اور اپنے اخلاق کو نہ دیکھا ۔ عدالت میں اگر دو شخصوں کی درخواست ایک ہی کاغذ پر لکھ کر دی جاوے اور وہاں سے حکم ہو کہ الگ الگ درخواست دو اور الگ الگ ٹکٹ لگاؤ تو وہاں کوئی کچھ نہیں کہتا ۔ ملانوں ہی کو تختہ مشق بنانے کو ہیں ۔ بات یہ ہے کہ قلوب میں دین کی وقعت نہیں اور طلب نہیں وہاں وقعت بھی ہے اور طلب بھی ہے ۔ لوگ اخلاق محمدی کے معنی ہی نہیں سمجھے بس ایک یہ معنی سمجھ رکھے ہیں کہ ان کے سارے نخرے اٹھاؤ خوشامدیں کرو ان کے تابع ہو کر رہو تب سمجھیں کہ اخلاق محمدی ہیں ۔ سو حضورؐ نے تو کبھی ایسے اخلاق نہیں برتے ۔ حضورؐ نرمی کی جگہ نرمی سختی کی جگہ سختی برتتے تھے اگر اتفاق سے کسی موقع پر رعایت میں مبالغہ ہو جاتا تھا تو حق تعالی کا امر ہوتا تھا کہ واغلظ عليهم آخر اس فرمانے سے کیا مطلب تھا ۔ نیز حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے آکر آواز دی حضورؐ نے پوچھا کون ۔ جواب دیا انا (میں ہوں ) حضورؐ نے ناگواری کے لہجہ سے فرمایا انا انا یعنی میں کہہ رہے ہیں اس کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ تم کون ہو چنانچہ روایت میں ہے كانه كرهها دیکھئے معمولی بات پر حضورؐ کو کیسے ناگواری ہوئی کہ راوی کو بھی احساس ہوا کیا یہ ممکن نہ تھا کہ ناگواری کو ضبط فرماکر ارشاد فرماتے کہ دیکھو بھائی یوں نہیں کہا کرتے مگر چونکہ اظہار ناگواری کی ضرورت اور اس میں مصلحت تھی ایسا نہیں کیا گیا ۔ اب تو اس واقعہ سے اخلاق محمدی کی حقیقت معلوم ہو گئی ہوگی کہ ہر شے اپنے محل میں ہو ۔ اب اعتراض کرو ۔ اور اعتراض بھی کونسی مشکل چیز ہے اس سے تو کوئی بھی نہیں بچا اللہ تعالی کو انبیاء علیہم السلام کو صحابہ کرام کو ائمہ مجتہدین کو کسی کو بھی نہیں چھوڑا ۔ علماء تو بے بے چارے کس شمار اور کس گنتی میں ہیں جو منہ میں آیا بک دیا جو قلم میں آیا لکھ دیا نہ خدا کا خوف نہ آخرت کی فکر اور خیال اللہ تعالی ہدایت فرمائیں اور فہم سلیم اور عقل کامل عطاء فرمائیں تاکہ حقائق کو سمجھ سکیں ۔ (340) آج کل کی تہذیب تعذیب ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں تو کہا کرتا ہوں کہ آج کل کی تہذیب تعذیب ہے جس سے مجھ کو طبعا انقباض ہے اس لئے میں جس وقت حیدر آباد دکن گیا اور دیکھا وہاں پر عرفی