ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
کار پاکاں راقیاس از خود مگیر گرچہ ماند در نوشتن شیر وشیر ایک مرتبہ کوئی صاحب دیوبند میں مہمان ہوئے تو یہ مہمان اور حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمۃ اللہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر تشریف لے گئے فلاں مولوی صاحب نے حضرت مولانا دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت یہ جگہ آپ کی قبر کے لئے مناسب ہے فرمایا کہ یہ تمہاری محبت کی بات ہے باقی میرا جی تو نہیں چاہتا عرض کیا کہ اور کہاں چاہتا ہے ۔ یہاں تو آپ کے شیخ اور استاد پھر بھی جی نہیں چاہتا ۔ فرمایا کہ میدان معرکہ ہو جہاد ہوتا ہو ۔ سر کہیں ہو پیر کہیں ہو ہاتھ کہیں دھڑ کہیں ہو ۔ قبر کہیں بھی نہ ہو ۔ حضرت مولانا کے تو یہ جذبات تھے ان کی کیا کوئی حرص کر سکتا ہے ۔ (423) حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کی مسلمانوں کو ایک نصیحت ایک صاحب کی غلطی پر متنبہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ بڑا عیب جو میرے اندر لوگوں کو معلوم ہوا وہ میری صفائی ہے ۔ میں فخر کی راہ سے بیان نہیں کرتا بلکہ خدا کی ایک نعمت کا اظہار کرتا ہوں کہ میری وجہ سے کوئی دھوکہ میں نہیں پڑ سکتا ۔ ہر بات میری بحمد اللہ صاف ہوتی ہے ۔ یہی دوسروں سے چاہتا ہوں کہ ہر بات صاف رکھو ذرہ برابر دوسرے کو دھوکہ نہ ہو ۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں اپنی جماعت کے لوگوں سے خصوصا اور دوسرے لوگوں سے عموما یہ چاہتا ہوں کہ اپنے اپنے کام میں لگے رہو اور طریقہ اور ڈھنگ سے لگے رہو دوسروں کے کاموں میں اور معاملات میں دخیل مت بنو اس باب میں مسلمان کا یہ مذہب ہونا چاہیے ۔ بہشت آنجا کہ آزارے نباشد کسے رابا کسے کارے نباشد (424) شہرت کی دو صورتیں ایک مولوی صاحب کے سوال کے جوا میں فرمایا کہ شہرت کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ اختیار اور طلب سے حاصل ہو یہ تو مضر ہے اور ایک یہ کہ غیر اختیاری ہو وہ نعمت ہے بلکہ اس غیر اختیاری شہرت میں خاص حکمتیں ہوتی ہیں اس لئے یہ شہرت گمنامی سے بھی افضل ہوگی اور عموما اللہ کے بندے گمنام ہونا چاہتے ہیں اور اپنے کو مٹاتے اور فنا کرتے رہتے ہیں مگر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اور زیادہ مشہور ہوتے رہتے ہیں باقی فی نفسہ مشہور پر مخلوق کا حسد اور طعن وغصہ بھڑکتا ہے اور اس طرح برستا ہے جیسے مشک کے دہانہ سے پانی گرتا ہے ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ۔