ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
(93) شفقت اور تصدی میں فرق ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ شفقت اور چیز ہے تصدی اور چیز ہے حق تعالی تصدی کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں ۔ اما من استغنی فان لہ تصدی اسی طرح بہت سی ایسی چیزیں ہیں کہ ان کی جامع مانع عنوان سے تعریف نہیں ہو سکتی کسی محقق کی صحبت میں رہ کر اپنے اوپر وارد ہونے سے سمجھ میں آتی ہیں ۔ (94) نفع کا انحصار طلب پر ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں جو آنے والوں کے ساتھ استغناء برتتا ہوں اس کی بھی ضرورت ہے بعض اوقات جلد توجہ کرنے سے غرض کا شبہ ہو جاتا ہے اور اس سے مجھ کو غیرت آتی ہے اس پر میں ایک مثال عرض کرتا ہوں رنڈی اور گھر ستن کی کہ رنڈی کو دو چار روپیہ دے کر جب چاہو راضی کر لو اور گھر ستن میں ایک قسم کا استغناء ہوتا ہے وہ ذرا مشکل سے رضا مند ہوتی ہے ۔ خدمت کرے گی مشقت اٹھائے گی لیکن جب اس پر زیادہ دباؤ دیا جائے گا تو صاف کہہ دے گی کہ میں کوئی زر خرید لونڈی تھوڑا ہی ہوں برادری کی برابر کی ہوں ۔ یہی فرق بے غرض اور دکاندار میں ہے اور دوسروں کی کیا شکایت کی جاوے اپنی ہی جماعت میں اس طبیعت اور مذاق کے لوگ موجود ہیں کہ لوگوں کو ترغیب دے کر لاتے ہیں اور جب ان کے ساتھ ضابطہ کا برتاؤ کیا جاتا ہے اور وہ متوحش ہو جاتے ہیں تو اس وقت یہ شکایت کرتے ہیں کہ میاں ہم تو بنا کر لاتے ہیں اور یہ اکھاڑ دیتا ہے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کیا واہیات ہے بڑے غیرت کی بات ہے ۔ ایک مولوی صاحب نے اس پر عرض کیا کہ حضرت اگر ایک طالب شخص سے اپنے معتقدفیہ کی سب باتیں بیان کر دی جائیں اور پھر اس کو مشورہ دیا جائے کہ ان سے تعلق کر لے کیا اس میں بھی کوئی حرج ہے ۔ فرمایا یہ بھی مناسب نہیں ۔ ایک شخص حسین ہے ہم کو تو پسند ہے او دوسرے شخص کو سمجھا دیا اور وہ متاثر بھی ہو گیا مگر اس کی نظر میں حسن کا دوسرا نقشہ ہے اس لئے وہ عارضی اثر چند روز میں زائل ہو جاوے گا ۔ حسن صورت اور حسن سیرت ان دونوں کے احکام قریب قریب ہیں پس مناسبت فطری نہ ہونے کی صورت میں ترغیبی