ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
دیا تھا کہ میں خود ہر ایک کا تعارف کراؤں گا یہ بھی موجود تھے جب ٹرین آ کر رکی تو سب سے اول کود کر وائسرائے کو گاڑی سے اترتے ہوئے گود میں اٹھا لیا اور سب قواعد رکھے رہ گئے اور اس زور سے یہ شعر پڑھا کہ سٹیشن گونج گیا ۔ الہی درجہاں باشی باقبال جواں بخت وجواں دولت جواں سال مگر وائسرائے اخلاق سے ان سے کہنے لگے کہ ول سردار صاحب تم اچھا ہے ۔ نصیحت کا ایک حکیمانہ انداز فرمایا کہ ایک قصبہ کے ایک سرکاری سکول میں ایک شریف مسلمان ماسٹر تھے ۔ اتفاق سے وہاں ڈائریکٹر صاحب آ گئے ۔ مگر سکول کی چھٹی ہو چکی تھی ان کو خبر لگی یہ پہنچے تو وہ گھوڑا لئے کھڑے ہیں انہوں نے اس کی باگ نہیں تھامی جب سائیں آیا تو اس نے باگ تھامی اور یہ اندر پہنچے ۔ سکول کا معائنہ کیا اور اچھا لکھا اور چلتے وقت نام لے کر کہا ماسٹر صاحب ہم خیر خواہی سے ایک بات بتلاتے ہیں تمہارے اس واقعہ کی ہم نے تو قدر کی اور معلوم ہوتا ہے تم شریف ہو اور شریف آدمی کبھی ایسی ذلت گوارا نہیں کرتا کہ کسی کا گھوڑا تھامے لیکن آئندہ ایسے لوگ نہ آئیں گے جو اس کی قدر کریں اس لئے یا تو تم نوکری چھوڑ دو یا آئندہ اور افسروں کے ساتھ ایسا نہ کرنا ۔ ایک شریف سید کا انگریز افسران سے برتاؤ فرمایا کہ ایک شریف سید کسی انگریز کے سر رشتہ دار تھے انگریز نے کسی بات پر ان کو برا بھلا کہا انہوں نے قلمدان اٹھا کر اس پر پھینک مارا اور کام پر سے چلے آئے ۔ دوسرے دن حاکم خود مکان پر پہنچا اور معذرت چاہی اور اپنے ساتھ ٹمٹم میں بٹھا کر لایا اتفاق سے ان کی بدلی ہو گئی اور ان کی جگہ دوسرا سر رشتہ دار آیا تو چونکہ اس حاکم کی برا بھلا کہنے کی عادت تھی اس نے اسے بھی یوں ہی کہنا چاہا وہ بھی سیدھا ہو گیا وہ گھبرا کر کہتا ہے کہ کیا تم ان سید صاحب کا بھائی ہے انہوں نے کہا ہاں ہم سید صاحب کا بھائی ہے اور واقعی ایسا ہی تھا ۔ کہا اچھا آئندہ ہم کچھ نہ کہیں گے اس پر سید صاحب کا ایسا اثر تھا ۔