ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
یہاں طاعون ہے یا نہیں میں لکھ دیتا تھا ۔ ماقصئہ سکندر ودارانہ خواندہ ایم ازما بجز حکایت مہر و وفا مپرس جو دل میں بسا ہوتا ہے وہی بروقت یاد آتا ہے فرمایا کہ مجھے ریل میں ایک بنیا ملا اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے یہاں گیہوں کا کیا نرخ ہے میں نے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں وہ تعجب سے کہنے لگا کہ گیہوں کا نرخ معلوم نہیں ۔ سچ یہ ہے کہ جس کے دل میں جو بسا ہوتا ہے اسے ہر موقع پر وہی یاد آتا ہے ۔ بسکہ درجان فگار و چشم بیدارم توئی ہرچہ پیدا میشود ازدور پندارم توئی معنی اعتبار کو نص کا مدلول کہنا درست نہیں اور شبلی کی حکایت فرمایا کہ ایک مرتبہ شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ککڑی والے نے آواز لگائی الخیار العشرۃ بدانق ۔ بس آپ چیخ مار کر بے ہوش ہو گئے کہ جہاں دس دس اخیار کی یہ قیمت ہے وہاں ہم اشرار کی کیا قیمت ہو گی اس پر تفریع کرتے ہوئے فرمایا ۔ کہ بزرگوں کو ہر وقت اپنے نفس کی اصلاح کی فکر ہوتی ہے ۔ وہ اسی دھن میں رہتے ہیں اس لئے اس کی طرف ذہن چلا جاتا ہے ۔ مثلا انہوں نے کسی کو پڑھتے ہوئے سنا اذھب الی فرعون انہ طغی پس فورا ان کا ذہن اس طرف چلا گیا کہ یا ایھا الروح اذھب الی النفس انہ طغی اور وہ اس کو تفسیر نہیں کہتے ۔ بلکہ سمجھ کر کہتے ہیں کہ ہمارے اندر بھی دو چیزیں ہیں ایک موسی علیہ السلام کے مشابہ یعنی روح اور ایک فرعون کے مشابہ یعنی نفس مگر اس کو کوئی قیاس نہ سمجھے صرف صورت قیاس ہے کیونکہ قیاس مظہر ہوتا ہے اور مثبت نص ہی ہوتی ہے جیسے کل مسکر حرام یعنی ہر مسکر حرام ہے اور افیون بھی مسکر ہے وہ بھی حرام ہے پس مثبت حرمت افیون کی بھی نص ہی ہو گی اور یہاں نص کا یہ مدلول نہیں کہ روح کو اصلاح نفس کے لئے خطاب ہوا ہو ۔ بعض ظاہر بینوں نے اس کو قیاس میں داخل کیا ہے اور معنی اعتباری کو نص کا مدلول کہا ہے مگر یہ قیاس نہیں فقط تذکر اور انتقال ذہنی ہے کہ ایک کو دیکھ کر دوسرا یاد آ جائے ۔ اس لئے اس کو نص کا مدلول نہ کہیں گے ۔ فافھم ۔