ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ اہل حقوق کو میدان قیامت میں محلات دکھلائے جائیں گے وہ دیکھ کر کہیں گے یہ کس کے لئے ہیں باری تعالی کا ارشاد ہو گا جو اپنے حقوق ہمارے بندوں سے معاف کرے ۔ سوال ۔ اس سے یہ بھی استدلال ہو سکتا ہے کہ حقوق العباد بھی معاف ہو جائیں گے ۔ ارشاد اس سے استدلال کی کیا ضرورت ہے جبکہ اس کی خود حدیث میں تصریح موجود ہے جیسے ابھی گزرا ۔ حقوق العباد کے مضمون پر ایک بے باک شخص کا قصہ یاد آیا کہ نانوتہ میں ایک شخص کہنے لگا کہ ہمارے حقوق بھی تو لوگوں پر ہیں ۔ قیامت میں اپنے حقوق والوں سے کہہ دیں گے کہ ان سے لے لو اگر یہ تمسخر ہے تو جواب ہی کی ضرورت نہیں اور اگر سچ مچ یہ عقیدہ ہے تو جواب یہ ہے کہ یہ موازنہ کیسے ہو گا کہ جس قدر دوسرے کے حقوق آپ پر ہیں اتنے ہی دوسرے پر آپ کے حقوق ہیں پھر یہ نہ معلوم کہ وہاں ایسے عقد ہو سکے گا یا نہیں ۔ ایک کفن چور کی حکایت ایک عالم نے کہا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک نباش نے مرنے کے وقت اپنے لڑکوں کو وصیت کی تھی کہ اگر میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا اور آدھی راکھ ہوا میں اڑا دینا اور آدھی پانی میں بہا دینا ۔ اگر اللہ تعالی مجھ پر قادر ہو گیا تو پھر خوب ہی سزا ہو گی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے قدرت میں شک تھا اور پھر بھی اس کی مغفرت ہوئی ۔ اگر قول سے شک نہ سمجھا جائے تو عمل سے تصریحا ظاہر ہے ۔ ارشاد ۔ صفات میں ہر شخص عقیدے میں اپنے فہم کے موافق مکلف ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس قدر علم علماء کو ہے عوام کو نہیں اور اس وجہ سے وہ ان کے برابر مکلف نہیں گو بعض متکلمین اس کو نہ مانیں گے ۔ مگر لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ ہر شخص کا علم و فہم جدا ہوتا ہے وہ شخص مطلق قدرت کو تو مانتا تھا مگر اس کا کوئی خاص درجہ اس کے علم میں نہ تھا اور پھر خشیت بھی تھی جب ہی تو اس نے یہ وصیت کی ۔ مگر یہ مسئلہ اس کی سمجھ نہ آیا کہ ہوا اور پانی سے جدا کر کے بھی موجود کر سکتے ۔ وہ بے چارہ یہی سمجھا کہ شاید اس عمل سے بچ جاؤں اسی خشیت کی وجہ سے اس کی مغفرت ہوئی ۔