ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
تھی روڑ کی ایک مرتبہ دو واعظ دو مولوی صاحب نے فرمایا کہ مولانا یہ معانقہ تو نہیں ہو مباطنہ ہوگیا تھا اور ان میں ترک کی بھی خاص شان تھی ایک بار جبکہ ماموں صاحب کا حیدرآباد دکن میں قیام تھا نواب محبوب علی خاں صاحب نے ایک تاریخ مقرر کی کہ آج ہم سب مزارات کی زیارت کریں گے چناچہ جس مزار پر گئے وہاں کے خدام نے پرجوش استقبال کیا مگر ماموں صاحب کے شیخ مرزا سردار بیگ صاحب کے مزار پر جو آئے تو یہاں ماموں صاحب پہلے سے مزار پر حاضر تھے مگر ان کو دیکھ کر صرف کھڑے ہو گئے اور سلام و مصافحہ کر لیا نزر بھی قبول نہیں کی جب وہاں سے رخصت ہوئے مضاحبین کو خیال ہوا کہ شاید نواب صاحب نے برا مانا ہوگا اس لئے تاویل کی کہ حضور یہ کچھ معزور سے ہیں ان کی بات کا کچھ خیال نہ فرمائیے نواب صاحب نے نہایت نا خوش ہو کر فرمایا کہ افسوس ایسے شخص کو پاگل اور دیوانہ کہتے ہو الحمدللہ کہ میرے شہر میں ایک ایسا شخص ہے کہ جس کے دل میں حب دنیا نہیں اور اس کے بعد ماموں صاحب کے پاس فرمان اور سواری بھیجی کہ اس وقت مجھ کو اسیری نہیں ہوئی یہاں تشریف لائیں تو عنایت ہو ماموں صاحب نے کہا کہ حضور اگر مجھ کو اپنی قلم رو سے نکالنا ہے تو دق کر کے کیوں نکالتے ہیں صاف کہہ دیں کہ میں کہیں نکل جاؤں آخر نواب صاحب خاموش ہو گئے باقی مجھ کو جو ماموں صاحب سے لگاؤ نہ تھا اس کا سبب ان کا مسائل میں لغزش کرنا تھا پھر اس کو زبان سے بھی ظاہر کرتے تھے بولتے بہت تھے اس میں ایسی باتیں کہہ جاتے تھے اور میں اس لئے خوش تھا کہ پیچھا چھوٹا میں نے ملنا بھی چھوڑ دیا تھا محض اس خیال سے کہ اگر ایسے منکرات پر سکوت کروں گا تو بے غیرتی ہے اگر بولوں گا تو گستاخی ہے ـ دور حاضر کے مفسرین کا حال ( ملفوظ 96 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں آجکل کے مدعیان قرآن دانی کے متعلق فرمایا کہ یہ تو ان نا اہلوں کا محض دعوی ہے کہ ہم قرآن کو سمجھتے ہیں اور تفسیر کر سکتے ہیں اس کے لئے ذوق سلیم اور فہم سلیم کی ضرورت ہے اور وہ پیدا ہوتا ہے تقویٰ سے اور بدون تقویٰ کے نور فہم کہاں نصیب گو نظر بھی وسیع ہو اس وسعت نظر اور عمق فہم پر میرے ایک دوست نے عجیب تھی کہ متجر کی دو قسمیں ہیں ایک کدومتجر ایک مچھلی متجر کدو تو دریا کے تمام سطح پر پھر جاتا ہے مگر اس کو یہ خبر نہیں کہ دریا کے اندر کیا ہے اور ایک مچھلی ہے کہ عمق میں پہنچتی ہے گو تمام دریا پر نہ تیرے سو