ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
نا گوار واقعات کی حکمت ( ملفوظ 137 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آخرت کا شوق عادۃ بدون دنیا کی نفرت کے نہیں ہو سکتا اور دنیا سے نفرت بدون ناگور حوادث کے نہیں ہوتی ـ یہ حق تعالی کی رحمت ہے کہ ایسے اسباب پیدا فرمادیتے ہیں ـ کہ آدمی کو خود بخود دنیا سے نفرت ہوجاتی ہے ـ اس ہی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ یہ تحریک حاضر جس میں مجھ کو برا بھلا کہا گیا ـ میرے نقصان کا سبب نہیں ہوئی بلکہ نفع کا سبب ہوئی چہار طرف سے نظر ہٹ کر ایک ہی طرف ہوگئی ـ اس ہی میں ان لوگوں کو اپنا محسن سمجھتا ہوں ـ جنہوں نے مجھ پر سب و شتم کیا یہ دولت ان ہی کی بدولت نصیب ہوئی ـ یہی وجہ ہے کہ میں سب کو دل سے معاف کر چکا ـ کنکریوں کے بدلے مجھ کو جوہرات عطا فرمائے گئے ـ حق تعالٰی کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ مجھ جیسے نا کارہ کوتاہ عمل پر اپنا فضل فرمایا ـ 26 ذی الحجہ 1350 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم سہ شنبہ روایت واقعہ میں علماء تک بے احتیاطی کرتے ہیں ( ملفوظ 138 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ روات کے اس معاملہ میں میں بہت محتاط ہوں ـ میں تو واقعات میں علماء تک کی روایت کا بھی اعتبار نہیں کرتا ـ میرا اعتقاد یہ ہے کہ یہ فتوی تو صحیح دیں گے مگر واقعات میں اکثر ان کا بھی معمول احتیاط کا نہیں ـ اس پر چاہے کوئی برا نہ مانے یا بھلا جو بات تھی صاف عرض کر دی ـ شہادت کے معتبر ہونے کی شرط ( ملفوظ 139 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ جو علی الاطلاق مشہور ہے کہ ہر معاملہ میں دو شہادت کافی ہیں - فی نفسہ تو صحیح ہے مگر اسکا اطلاق غلط ہے خود شہادت کے شہادت ہونے میں یہ شرط ہے کہ مدعی قاضی کے یہاں دعوی کرے اور قاضی مدعی علیہ کو طلب کرے ـ اس وقت جو شہادت بر سر اجلاس ہوگی وہ معتبر ہوگی اور بدون اس کے دو تو کیا اگر دس آدمی بھی کہا کریں تو حجت شرعیہ نہیں حتی کہ وہ شہادت بھی معتبر نہیں جو حاکم وقت یعنی قاضی کے مکان پر ہوا ـ اجلاس پر نہ ہو ـ غرض شہادت عدالتی معتبر ہے ـ خانکی شہادت حجتہ نہیں دیانات میں معتبر ہے مگر احکام قضا میں معتبر نہیں علی الاطلاق حجیت کا اعتقاد غلط ہے ـ اسی طرح دعوی میں شرط ہے ـ مدعی ذاتی علم کی بناء پر دعوی کرے محض سنی ہوئی روایت پر دعوی نہیں کر سکتا ـ اگر کرے گا مسموع نہ ہوگا ـ حتیٰ کہ