ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
وجہ سے بات تو بڑے کام کی فرمائی بس ایسے پیروں کے یہ علوم اور معارف ہیں ان جاہلوں نے حقائق اور معارف کو بالکل مستور کر دیا مگر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب ہمارے اکابر کی برکت سے انکے جہل کی حقیقت لوگوں پر منکشف ہو گئی ـ شرط دخول الطریق ـ یعنی راہ سلوک میں داخل ہونے کے آداب (ملفوظ 43 ) ( ملقب بشرط دخول الطریق ) یک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ان رسم پرست اور مدعیان طریق اور گمراہوں اور ڈاکوؤں سے بجائے دینی نفع کے بہت مخلوق گمراہ ہو چکی ہے اور نفع کیا ہوتا بقول شخصے جب سقاوہ ہی میں پانی نہ ہوتا تو بدھنی میں کیا آوے یہ لوگ فیض فیض گاتے پھرتے ہیں ہاں مرید سے ایسے پیر کو فیض ضرور ہو جاتا ہے مطلب یہ کہ دنیا حاصل ہوجاتی ہے ان لوگوں نے بچارے مریدوں کا دین تو خراب کیا ہی تھا لوٹ لوٹ کر ان کی دنیا بھی برباد کردی انکی آمدنیوں پر قبضہ کئے ہوئے ہیں مرید خواہ بیوی کو کچھ دے یا نہ دے خواہ بچے بھوکوں مریں مگر پیر صاحب کی خدمت فرض و واجب ہے جس کے نہ کچھ حدود ہیں نہ اصول نہ حرام کی خبر نہ حلال کی جائز کی تمیز نہ ناجائز کی غرض نہایت گڑ بڑ مچا رکھی ہے اور یہ اندھے مرید بھی ایسی ہی جگہ خوش یہتے ہیں سیدھی سادی باتیں ان کو پسند نہیں بس علاج بھیل ایسے بد فہموں کا یہی ہے اور تمام خرابی رسوم کی پابندی کی ہے ہم نے تو اپنے بزرگوکو ہمیشہ معاملہ میں مصالح پر شریعت کو مقدم رکھتے دیکھا اور رسوم مروجہ سے ہمیشہ ان کو طبعی نفرت رہی ان ہی رسوم میں سے آج کل اس پیری مریدی کا سلسلہ ہے اس میں بھی بالکل رسم کا اتباع کیا جاتا ہے چناچہ اصل مقصد کو چھوڑ بیٹھے اور محض مطلق بیعت کو مقصود بنالیا جس کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض کو دیکھا کہ پہلے تو جوش کے ماتحت ہو کر مرید ہوگئے ہیں اور پھر بددل ہوکر پریشان پھر رہے ہیں اسی لئے مین لوگوں کو مشورہ دیا کرتا ہوںکہ بیعت میں جلدی نہ کرو حتی کہ جو شخص قرائن سے کامل بھی سمجھا جاتا ہو اس سے بھی بیعت کرنے میں جلدی نہ چاہیئے کیونکہ پہلے پیر کو بھی کامل سمجھ کر بیعت کی تھی پہلے عقلا جو نکاحوں میں کاوش کرتے تھے اس ہی لئے کہ کوئی بات بعد از نکاح کے ظاہر نہ ہو جس سے تعلقات میں بے لطفی پیدا ہو کیونکہ آخر زیست تک کا تعلق ہے سو بیعت کا قصہ تو اس سے بھی زیادہ نازک ہے اسلم یہ ہے کہ بیعت کا تعلق تو پیدا نہ کرےاور کام شروع کردے اس صورت میں سہولت ہے کہ جس روز اعتقاد بدلے سلسلہ تعلیم کا ختم کردے جس میں ضرورت اطلاع کی بھی نہیں اس طرز میں جانبین کو کتنی راحت ہے اسی طرح شیخ کو بھی چاہیئے کہ اگر مرید سے عدم مناسبت کا علم ہو جاوے اس کو