ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
کیفیت نفسانی و رحانی میں فرق ( ملفوظ 225 ) ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ کیفیت نفسانی ہے اور یہ روحانی فرمایا جس کیفیت میں مادہ شرط ہو وہ نفسانی ہے اور جس میں مادہ شرط نہ ہو وہ روحانی ہے اور اسکا پورا پتہ تو مرنے کے بعد چلے گا جب مادہ سے تجرد ہو جائیگا باقی یہاں پتہ چلنا تو یہ محض تبرع ہے کہ یہاں بھی کسی پر ظاہر کردیا جاتا ہے کہ لیکن ظہور کا منتظر نہ رہے اصل چیز تو اعمال ہیں انکے اہتمام میں مشغول رہنا چاہیئے کیفیات کے پیچھے ہی نہ پڑنا چاہیئے لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ اعمال کی روح کیفیات کو سمجھتے ہیں حالانکہ روح کی کیفیات نہیں بلکہ روح اعمال کی اخلاص ہے خصوص کیفیات نفسانیہ تو کسی درجہ میں مقصود ہی نہیں بلکہ بعض حالتوں میں مضر ہو جاتی ہیں اور کیفیات روحانیہ گو محل التفات تو نہ ہونا چاہیئے مگر وہ مضر کسی حال میں نہیں اسکو ایک مثال سے سمجھ لیجئے کہ ڈاکخانہ کے ذریعہ سے ایک پارسل آیا اسکو کھولا گیا تو اس میں سے ایک بم کا گولا نکلا اور ایک دم پھٹ گیا تمام جسم کو ذخمی کر دیا ہاتھ جل گیا منہ جھلس گیا اور ایک پارسل آیا جس میں سیب انگور انار امرود نکلے تو پہلی صورت تو کیفیات نفسانیہ کی حالت ہے اور دوسری صورت رحانی کیفیت ہے اور یہ جتنے دعویٰ حدود کے باہر ہوئے ہیں اناالحق وغیرہ یہ سب کیفیات نفسانی ہی سے تو ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ کاملین کو ایسی حالت پیش نہیں آتی حضرت شیخ عبدالحق روددلوی رحمتہ اللہ علیہ نے جامع مسجد میں تیس برس نماز پڑھی اور استغراق کی یہ کیفیت تھی کہ اتنے زمانہ تک راستہ جامع مسجد کا نہ معلوم ہوا بختیار خادم کی حق حق کی آواز پر تشریف لیجاتے تھے مگر نماز کسی وقت کی قضاء نہیں ہوئی ان ہی بزرگ کا مقولہ ہے منصور بچہ بود کہ از یک قطرہ بفر یاد آمد ایں جا مردانند کہ دریا ہا فرد برند آردغ زنند پس اناالحق نتیجہ تھا کیفیات نفسانیہ کے غلبہ کا اور یہ مقولہ نتیجہ تھا کیفیات روحانیہ کے غلبہ کا اور اس جوش خروش سے رونق تو ہو جاتی ہے خانقاہ کی کوئی ہو حق کر رہا ہے اور کوئی رو رہا ہے اور کوئی چلا رہا ہے اور کوئی کود رہا ہے کوئی پھاند رہا ہے کوئی امنڈ رہا ہے کوئی ابل رہا ہے مگر ایسی حانقاہ مجانین کی ہوگی عقلا کی نہیں ہوگی حضرات صحابہ کرام کی طرح رہنا چاہیئے یہ ہی شان محبوبیت کی ہے مگر آجکل ہو حق کا کرنا ہی بڑا بھاری کمال سمجھا جاتا ہے ـ درویشی اور مولویت میں ایک فرق ( ملفوظ 226 ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ درویشی کا رنگ ڈھیلا ہے ( بیائی معروف ) اور مولویت کا رنگ ڈھیلا ہے ( بیائے مجہول اس لئے لوگ مولویوں سے گھبراتے ہیں اور درویشوں کو چمٹتے ہیں ـ