ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
کرنے کی صورت میں کچھ بھی مشکل یا دشواری نہیں ہوتی اور گود و شخص سے جو تعلق ہوتا ہے ـ اس میں فرق ضرور ہوتا ہے مگر عدل کے وقت دونوں کے مساوات ہونا چاہئے ـ میں نے خاص یہ صفت یعنی شکایت سے متا ثر نہ ہوتا ـ دو بزرگوں میں ایک خاص شان کی دیکھی ہے ـ یوں تو سب ہی بزرگوں میں اچھی صفات ہوتی ہیں مگر پھر بھی تفاوت ضرور ہوتا ہے ـ ایک حضرت مولانا قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور ایک حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ میں سو حضرت مولانا صاحب تو شکایت سنتے نہیں تھے فرمادیتے کہ میں سننا نہیں چاہتا اور حضرت حاجی صاحب کی اس عادت کی دلیل قرآن میں ہے ـ وہ یہ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا پر منافقین نے تہمت لگائی ـ حق تعالی اس باب میں فرمادیتے ہیں ـ لو لا جاؤا علیہ باربعۃ شھداء فان لم یا تو با لشھداء فاولٰئک عنداللہ ھم الکاذبون ( یہ لوگ اپنے قول پر چار گواہ نہ لائے ـ سو اس صورت میں کہ یہ لوگ موافق تاعدہ کے گواہ نہیں لائے تو بس اللہ کے نذدیک یہ جھوٹے ہیں ـ اور " عنداللہ سے مراد ہے فی دین اللہ فی قانون اللہ " اللہ کے دین میں اللہ کے قانون میں ) آگے ارشاد ہے ـ ولو لا اذ سمعتموہ قلتم ما یکون لنا ان نتکلم بھذا سبحانک ھذا بھتان عظیم ۔ ( اور تم نے جب اس بات کو اول سنا تھا تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہم کو زیبا نہیں کہ ہم ایسی بات منہ سے بھی نکالیں معاذاللہ یہ تو بہت بڑا بہتان ہے ) اس سے صاف معلوم ہوا کہ حسن ظن کیلئے دلیل کی ضرورت نہیں ـ سوء ظن کی دلیل کا نہ ہونا یہی ہی کافی دلیل ہے ـ حسن ظن کی پس حضرت حاجی صاحب پر یہ شبہ نہیں ہو سکتا ـ کہ بلا دلیل شا کی کو کیسے کاذب فرما دیا ـ البتہ با وجود غلط سمجھنے کے اگر کسی دوسری بناء پر عمل کیا جاوے تو دوسری بات ہے جیسا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص کے متعلق شکایت کو جھوٹ سمجھا مگر انتظامی مصلحت کی بناء پر ان کو معزول کر دیا ـ اجنبی شخص کا ہدیہ اور حضرت کا کمال ادب ( ملفوظ 303 ) ایک نو وارد نا شنا سا صاحب آئے انہوں نے حضرت والا کی خدمت میں کھجوریں پیش کر کے عرض کیا کہ یہ مدینہ طیبہ کی ہیں ـ حضرت والا نے فرمایا کہ ایک کھجور لے سکتا ہوں ـ بالکل نہ لینے کو مدینہ کی بے ادبی سمجھتا ہوں ـ آپ نے ہدیہ دینے میں غلطی کی ـ جس سے بے تکلفی نہ ہو ـ میں اس سے ہدیہ لیا نہیں کرتا ـ آپ کو دینا نہ چا ہئے تھا اب مجھ کو دونوں پہلوؤں کے جمع