ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
متوہم نہیں ہو سکتا تھا کہ آپ نے کوئی پالیسی کی ہو ورنہ دوسرا آدمی کتنا صاف ہو لیکن کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی بات کو ضرور مخفی کرتا ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حالت تھی اور جو واقعات تھے حتی کہ جن کا تعلق ازواج مطہرات سے تھا وہ بھی کسی پر مخفی نہ تھا حضور نے کبھی اسکی پروا نہیں کی آپکی جو حالت تھی بالکل کھلی ہوئی تھی کسی حالت سے کسی کو دوھوکا نہیں ہو سکتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ جو بھی اس حالت کو دیکھ کر ایمان لائے وہ دل سے لائے مضبوط اور جان نثار ثابت ہوئے ـ دوسروں پر مواخزہ کیوقت حضرت پر غلبہ خوف ( ملفوظ 202 ) ایک صاحب کی غلطی پر متنبہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں جب کسی ک کوتاہی یا غلطی پر متنبہ کرتا ہوں خود مجھ پر اسوقت ایک خوف کا غلبہ ہوتا ہے اور جہاں کسی نے معذرت پیش کی میں فورا نرم ہو جاتا ہوں اس لئے کہ مجھ کو بھی تو خوف ہے کہ اگر کہیں حق تعالی مجھ سے اسی طرح ، مواخزہ فرمائیں اور معزرت قبول نہ ہو تو کیا جواب دے سکتا ہوں جب اللہ تعالٰی کے یہاں توبہ قبول ہے تو بندوں کی کیا حالت اور کیا ہستی ـ ابتدائے سلوک میں قلت کلام کی ہیئت : ( ملفوظ 203 ) ایک صاحب کی غلیطی پر ماخزہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالٰی ہی نے اپنی رحمت سے ہمت دی ہے کہ بوجود اتنی لمبی چوڑی اذیتوں کے پھر تحمل کی توفیق ہوتی ہے بدون توفیق کوئی کر نہیں سکتا اور زیادہ اذیت بے سمجھے بیعت پر اصرار کرنے سے ہوتی ہے سو اول تو خود بیعت ہی ضروری چیز نہیں خواہ مخواہ لوگ اس میں الجھتے ہیں اور نہ یہاں کے قیام میں مجھ کو مکاتبت مخاطبت کی فرصت ضرورت تو اسکی ہے کہ یہاں پر چند روز بیٹھ کر باتیں سنیں اور چلے جائیں چاہے اعتقاد لیکر جائیں اور چاہے بداعتقادی لیکر جو رائے قائم ہو اسپر عمل کریں تو لوگ اسکو ٹالنا سمجھتے ہیں یہ بھی بد فہمی کی بات ہے نئے آدمی کو جسقدر نفع یہاں پر خاموش بیٹھنے میں ہو سکتا ہے مکاتبت مخاطبت سے وہ نفع قیامت تک بھی نہیں ہو سکتا اور اگر خاموش بیٹھنے سے نفع نہ ہو تو اسی سے قابلیت معلوم ہو جائیگی تو ایسے شخص سے تعلق رکھنا ہی بیکار اس لئے کہ جس میں میں اسقدر بے حسی ہوا اسکو کیا نفع پہنچ سکتا ہے اسی لئے یہاں نئے آنے والے سے یہ شرط کر لی جاتی ہے کہ اگر مخاطبت مکاتبت نہ کرو اور خاموش مجلس میں بیٹھے رہو تو آنے والے کی اجازت ہے اگر کسی کو یہ طرز پسند نہ ہو یہاں نہ آئے کہیں اور تعلق پیدا کرے اگر بولنا چاندی ہے تو سکوت سونا ہے ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا فیصلہ اس بارہ میں یہ ہے کہ شیخ کو زبان ہونا چاہیئے یعنی افادات کا ناطق ہو اور مرید کو کان ہونا چاہیئے