ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
رعایت کرتے ہوئے کہا کہ اچھا یہ بتلا کہ مینہ کون برساتا ہے اولاد کون دیتا ہے کہا کہ اللہ میاں میں نے کہا کہ بھلا مرکر بھی کوئی کام کرسکتا ہے کہا کہ نہیں میں نے کہا کہ بس تو اب تم خود ہی سمجھ لو بہت خوش ہوئی اور دعائیں دیں ایک عورت نے بنت میں ایک مولوی صاحب کے وعظ میں سنا کہ ایک وقت ایسا ہوگا کہ سوائے اللہ کی ذات کے کوئی نہ ہوگا اس پر نہایت حسرت سے بولی کہ اکیلے اللہ میاں کا جی نہیں گھبرائے گا نعوذ باللہ ایسے لوگوں کی باتیں ایسی ہیں کہ جیسے کہ ایک شخص کا واقعہ حدیث میں آیا ہے کہ نہایت گنہگار تھا موت کے قریب بیٹیوں کو وصیت کی کہ میرے مرجانے کے بعد مجھ کو قبر میں دفن نہ کیا جاوے بلکہ میری لاش کو لکڑی جمع کرکے اسمیں جلا دیا جاوے اور جو کچھ میرے لاش کی راکھ ہو اس کو نصف دریا میں چھوڑ دی جاوے اور نصف آندھی میں اڑا دی جاوے اس کے بعد بھی اگر میں اللہ تعالی نے حکم فرمایا سب مٹی جمع ہوگئی اس میں روح پھونک کر سامنے حاضر کردیا گیا حق تعالی نے سوال فرمایا کہ ایسا کیوں کیا عرض کیا کہ اے اللہ آپ کے خوف سے ایسا کیا اس پر حق تعالی نے مغفرت فرمادی اب دیکھنا یہ ہے کہ عقیدہ اس شخص قدرت کے متعلق کامل نہ تھا بلکہ ناقص تھا مگر اس پر کوئی مواخزہ نہیں فرمایا گیا کیونکہ اس کی عقل اتنی ہی تھی اس لئے معزور قرار دیا گیا ایک اور واقعہ ہے ایک گنوار نے وعظ میں سناکہ حق تعالی ہاتھ پیر وغیرہ سب سے مبرا اور منزہ ہے اس نے واعظ کو جواب دیا کہ ( نعوذباللہ ) تیرا خدا بطخ شامی ہو گا ہمارے خدا کے تو ہاتھ پیر سب کچھ ہیں ہمارے تو ہاتھ پیر ہوں ان کے نہ ہوں بس اسکا فہم اس سے زیادہ نہ تھا مدار تکلیف کا عقل ہی ہے بس جتنی عقل اتنی تکلیف ـ الاذھاب للاعجاب یعنی عجب کا علاج ( ملفوظ 41 ) ( ملقب بہ الاذھاب الاعجاب ) ایک سلسلہ گفتگو میں چند امور فرمائے جو علاج ہیں عجب کے ایک یہ کہ اعمال پر جنت اور القاء حق کا ترتب یہ محض فضل ہے ورنہ خود اعمال میں یہ قوت نہیں کہ ان پر اتنی بڑی جزا مرتب ہو سکے پس اعمال پر کبھی ناز نہ کرے بلکہ اعمال کو ہیچ سمجھ کر اس نعمت کا مستقلا سوال کرتا رہےاسی مراقبہ سے علاج ہو جاؤیگا عجب کا کہ عمل طاعات سے بڑا مقصود جنت میں داخل ہو کر رضاء حق اور دیدار حق کا حاصل کرنا ہے عشاق کا تو مذہب ہی یہ ہے کہ جنت کو وہ دوست کی ملاقات کا مقام سمجھتے ہیں اور اسی طرح دوزخ کو دوست کے فراق کی جگہ تصور کرتے ہیں اور دوسراامر یہ فر مایا کہ استعداد کا مسئلہ بڑا اہم مسئلہ ہے قصہ آدم علیہ السلام اور ان کی تعلیم اسماء میں اور فرشتوں کے عجز عن الجواب کی بناء پر یہی استعداد ہے ان علوم اسماء کے اخز کرنے کی استعداد آدم