ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
اب گھل رہے ہیں ـ ایک یہ کہ اب تو سب مسلمانوں سے حسن ظن ہے اور اس وقت دوسروں کا عیب بھی منکشف ہوتا اجتنبوا کثیرا من الظن ( بہت سے گمانوں سے بچا کرو ) کو صاحب کشف نہیں بجا لا سکتا ـ اور جس کو کشف نہ ہو تو وہ اس کو بجا لا سکتا ہے تو کشف نہ ہونے میں یہ کیا تھوڑی نعمت حاصل ہوتی ہے کہ حکم شرعی پر عامل ہونے کی توفیق ہوگئی ـ اسی طرح الہام بھی کوئی کمال کی چیز نہیں ـ فالھمھا فجورھا وتقواھا کی رو سے ہر شخص ملہم ہے ـ ہاں بڑی چیز یہ ہے کہ اپنے کو فنا کر رہا ہو یہ ہے دولت اس کے سامنے کیا الہام اور کیا کشف اور کیا کرامت اسی کو کہتے ہیں ـ ہوفنا ذات میں کہ تو نہ رہے گم ہستی کی رنگ و بو نہ رہے اور اسی کو کہتے ہیں تو درو گم شو و صال ایں است و بس گم شدن کم کن کمال ایں است و بس ( تو ایں میں فنا ہو جا ـ یہی وصال کا حاصل ہے ـ فنا ہونے کی طرف بھی توجہ نہ کرو یہی کمال فنا ہے ) آجکل کی تہذیب تعذیب ہے ( ملفوظ 311 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل کے مدعیان تہذیب میں تہذیب تو خاک نہیں ـ ہاں تعذیب ہے ان نیچریوں سے میں کہا کرتا ہوں کہ تم چالیس روز پاس رہو ـ تب سوال پیدا کرنے کی قابلیت پیدا ہو اور صاحب میری تو بڑے بڑے مدعیوں سے گفتگو ہوئی ـ سچ جانے چار منٹ بھی نہ چلے اور بک بک کرنا یہ کوئی کمال کی بات نہیں ـ بدعتی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص ( ملفوظ 312 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں نے ایک وعظ میں بیان کیا تھا کہ یہ بدعتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو الہ مانتے ہیں مگر باقص اور ہم عبد کہتے ہیں مگر کامل تو تم حضور کی تنقیص کرتے ہو اور ہم کمال کے قائل ہیں ـ چشتیہ کی مسکنت اور انکساری ( ملفوظ 313 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ چشتیوں کے اندر نہایت مسکنت غربت انکساری اور شکستگی ہے ـ مگر ان ہی میں جو اللہ کا نام لینے والے ہیں باقی جو صرف گانے بجانے کودنے ناچنے ہی کو اصل شغل سمھتے ہیں وہ چشتی ہی نہیں پھر شکستگی پر ایک حکایت بیان فرمائی کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی ایک طالب علم نے دعوت کی ـ اپ نے فرمایا کہ ایک شرط سے منظور