ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
پر کسی کو بھی بھروسہ نہ ہوگا پس اس طرح وعدہ الھیہ میں وقت اور سبب مبہم ہے تو اس میں پریشانی ہونا منافی توکل نہیں اعتقاد تو یقینا یہی ہے کہ خدا تعالٰی کا وعدہ سچا ہے مگر وقت اور سبب نہ معلوم ہونیکی وجہ سے طبعی پریشانی ہوتی ہے تو اس میں دو درجے ہیں اعتقادی اور ایک طبعی جس طرح ہر مسلمان کے قلب میں حق تعالٰی کی خشیت ضرور ہے مگر اس میں بھی وہی تقسیم ہے یعنی ایک خشیت اعتقادیہ ایک خشیت طبعیہ اسی طرح کوئی شخص مومن نماز پڑھتا ہے اور اس میں کسل ہوتا ہے تو یہ کسل اعتقادی نہیں کسل طبعی ہے اگر اعتقادی ہوتا تو پڑھتا ہی کیوں تو امور طبعیہ سے اپنی بد حالی کا گمان کر کے پریشان نہ ہونا چاہیئے اور ان اصول کے استحضار کے بعد بھی اگر پریشانی ہو تو یہ جہل ہے یا کید نفس ہے اسکو علم صحیح میں قید کرنا چاہیئے اور حضرت اگر یہ موانع طبعیہ مانع نہ ہوں تو پھر عبادت میں اجر ہی کس بات کا ہونا واقف ان موانع کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ موانع حکمت کے لئے پیدا ہوتے ہیں ازالہ کے واسطے پیدا نہیں کئے گئے ہاں امالہ کی ضرورت ہے مثلا انسان کے اندر طاعات سے ایک بڑا مانع شہوت ہے مگر اسکی حکمت کو مولانا فرماتے ہیں ـ شہوت دنیا مثال گلخن است ، کہ از و حمام تقویٰ روشن است یعنی اس شہوت سے تقوے کا حمام گرم ہوتا ہے روشن ہوتا ہے اس طرح دنیا کی شہوت اور رغبت سے داعیہ معصیت کا پیدا ہوا ادھر عقل اور دین کی قوت سے اس کی مقاومت کی بس ملکر درویشی ہوگئی ایک عورت نے دوسری عورت سے پوچھا تھا کہ فوج کسے کہتے ہیں اس نے کہا تیرا میاں میرا سب ملکر فوج ہو گئی مگر لوگوں نے درویشی کو کم فہمی کے سبب مصیبت بنا دیا تھا مقاصد یعنی اعمال کو غیر مقاصد اور غیر مقاصد یعنی کیفیات طبعیہ مثلا زوال داعیہ شہوت و غضب کو مقاصد سمجھ لیا شریعت کی حقیقت اصلیہ یعنی رسوخ اعمال اگر حاصل ہو جائے بس یہ ہی درویشی ہے اسی کی تدابیر کو طریقت کہتے ہیں ـ سنت کی تعریف اور اسکی وضاحت ( ملفوظ 448 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ سنت کہتے ہیں عادت غالبہ کو تو نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو عادت غالب ہے اسکو سنت کہا جاتا ہے ورنہ ہر منقول سنت نہیں اباحتہ ہوگی پھر غلبہ خواہ حقیقیہ ہو یعنی کثرت صدور اور خواہ حکمیہ ہو یعنی اگر موانع نہ ہوتے تو کثرت صدور ہوتا جیسے تراویح کہ حضور نے اس پر دوام نہیں فرمایا مگر خود آپ کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر افتراض کا اندیشہ نہ ہوتا تو دوام فرماتے ـ