ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
بزرگ نے جواب میں لکھا کہ خوردن تو مرغ مسمی دمے طعمہ مانانک جویں ما پوشش تو اطلس دو یبا حریر بخسیہ زدہ خرقہ پشمین ما ( تیری غزا بھنا ہوا ----- مرغ اور شراب ہے ہماری خزاجوکی روٹی تیرا لباس اطلس اور دیبا اور ریشم ہے - اور ہمارا لباس ہماری پیوند زدہ گدڑی ہ ) اور آخر میں فرماتے ہیں نیک ہمیں است کہ می مگزرد راحت تو محنت دو شیں ما باش کہ تاطبل قیامت زنند آن تو نیک آیدہ ویاایں ما عنقریب یہ سب چیزیں گزر جاویں گی تیری راحت بھی اور ہماری تکلیف بھی ذرا انتظار کرو کہ قیامت کا طبل بجاویں پھر دیکھنا ہے کہ تیری حالات درست ہوں یا ہمارے ) مطلب یہ ہے کہ اس روز معلوم ہوگا کہ یہ حالت اچھی تھی یا وہ اور صل بات تو یہ ہے کہ ان بادشاہوں کی یہی رائے ان بزرگوں کو تکیف میں سمجھتے تھے غلط تھی - ان حضرات کے قلوب میں ایک ایسی چیز ہوتی ہے کہ وہ سبب سے مستغنی کردیتی - لوگوں کے ہنسنے پر آپکا ضرر نہیں ( ملفوظ 17 ) ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت فلاں مقام پر جو جدید مدرسہ بچوں کی تعلیم قرآن و دینیات کے لۓ ہم لوگوں نے جاری کیا ہے اس پر لوگ ہنستے ہیں کہ یہ تو چھے مہینے کا ہے پھر نہ مدرسہ رہے گا نہ مدرسی فرمایا کہ ہنسنے دیجیے آپ کا کیا ضرر ہے اگر ایک شخص کو ایک وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق ہو جاہۓ تو ایک ہی وقت کی سہی ایک وقت کا تو قرض ادا ہوا نہ پڑھنے سے تو بہتر ہے مولا نا جامی رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے کہا تھا کہ فلاں شخص ریا سے ذکر کرتا ہے فرمایا کرتا تو ہے تم کو تو ریا سے بھی کبھی توفیق نہ ہوئ تمہارا کیا منہ ہے اعتراض کا حاصل جواب یہ ہے کہ اول تو ریا ہی کا ثبوت نہیں دوسرے ممکن ہے ریاء ہی سے عادت ہو جاۓ پھر عمل بلا ریا ہونے لگے ایک مجتہد شیعی نے ایک مولوی صاحب سے نانوتہ میں کہا تھا آپ حضرات نے فلاں کام کیا تھا جس میں خطرات بھی تھے آخر کیا نتیجہ نکلا بجز پریشانی کے جواب میں مولوی صاحب نے یہ قطعہ